مزید خبریں

مجھے تو بچے کھیلتے نظر آرہے ہیں…

حکیم محمد سعید نے بہت سے ادارے قائم کیے، جس کا افتتاح کیا اس کا آغاز بھی کیا۔ حکیم محمد سعید کے قائم کردہ شاہکار اداروں میں سے ایک ہمدرد پبلک اسکول بھی ہے جس کی سلور جوبلی 10 ۔اکتوبر کو منائی گئی۔ 1987 میں جب حکیم صاحب نے یہاں اسکول قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو ان کی بیٹی سعدیہ راشد سمیت کئی لوگوں نے سوال اٹھایا کہ یہاں کیوں…اور کون آئے گا؟ تو حکیم صاحب مسکرا کر کہتے تھے کہ یہاں مجھے تو بچے کھیلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہ ان کا وژن تھا۔ محترمہ سعدیہ راشد کہتی ہیں کہ جب اسکول کا افتتاح ہوگیا اور کئی سال گزر گئے تو وہ ان لوگوں سے پوچھتے…کیوں بچے کھیلتے نظر آرہے ہیں ناں؟ اس سال اس اسکول کی 25 ویں سالگرہ ہوئی یہاں سے پڑھنے والے ایک کمپنی کے عام سی ای او اور ایک سرجن نے اپنے خیالات پیش کیے اور یادداشتوں کے حوالے سے گفتگو کی۔ دونوں نے ہی حکیم سعید کو اپنا دوست کہا اور ان کا مکالمہ یاد دلایا۔ کیسے ہو دوست۔ الحمدللہ اچھا ہوں۔ اس اسکول کے ساتھ ایک ولیج اسکول بھی ہے جس میں علاقے کے لوگوں کے بچوں کو تعلیم، یونیفارم، کتابیں سب مفت ملتی ہیں۔ اس اسکول کے ایک بچے کے ساتھ اس کے والد مدینتہ الحکمہ میں وائس چانسلر سے ملنے آئے انہوں نے پوچھا کہ اب آپ کا بچہ کیسا ہے تو جواب ملا جب سے آپ کے پاس پڑھ رہا ہے بدتمیز ہوگیا ہے۔ وائس چانسلر نے کہا وہ کیوں… کہنے لگا پہلے ہم اس سے پان، گٹکا اور دوسری منشیات منگواتے تو خوشی خوشی لاتا تھا اب کہتا ہے کہ یہ چیزیں چھوڑ دویہ غلط ہیںہمیں نصیحتیں کرتا ہے۔ جب اسکول کی تقریب میں گئے تو ہم نے منتظمین اور میزبان سے اعتراض کیا کہ حکیم صاحب تو اردو کے فروغ میں نمایاں کام کرتے رہے آج کی تقریب انگریزی میں کیوں ہے۔ اس پر ہمیں بتایا گیا کہ یہ اسکول انگلش میڈیم ہے اور اس کے بچوں کی استعداد میں اضافے کے لیے تقریب انگریزی اور اردو دونوں میں ہو رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کالج کی ایک سابق پرنسپل تنویر رئوف جب خطاب کرنے آئیں تو انگریزی میں بات شروع کی لیکن نہایت شستہ اردو میں انہوں نے تقریر کے دوران بہت سے جملے ادا کیے ۔ وہ انگریزی ہی پڑھاتی تھیں۔ ہمدرد اسکول کے 25 سال کا مطلب اس اسکول سے 15 نسلوں نے میٹرک کیا ہے یعنی کم از کم 15 میٹرک کلاسیں یہاں سے نکل چکی ہیں۔ اسکول کا ایک ایک شعبہ دیکھا ۔ پورے منصوبے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جس ذہن میں یہ منصوبہ تھا اس کے سامنے یہ جگہ اور یہاں آنے والوں کی صلاحیتیں سب کچھ تھا۔ یہ جان کر بھی حیرت ہوئی کہ ولیج اسکول جہاں پہلے پہل لڑکوں کو نہیں آنے دیا جاتا تھا اب وہاں لڑکیاں بھی زیر تعلیم ہیں۔ پورے مدینتہ الحکمہ کی طرح یہاں بھی حتی الامکان چھوٹے ملازم مقامی ہی ہیں۔ اسکول کے شعبہ جات کی بات ہو رہی تھی سائنس لیب مکمل ہے۔ عام طور پر ایک ہی لیب میں فزکس، کیمسٹری وغیرہ کے تجربات ہوتے ہیں لیکن یہاں الگ الگ رکھی گئی ہیں۔

گزشتہ دنوں دو مرتبہ مدینتہ الحکمہ جانے کا اتفاق ہوا۔ پہلی مرتبہ ادارہ سعید کی دعوت پر جس میں محترمہ سعدیہ راشد اور یونی ورسٹی کے وائس چانسلر سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ دوسری مرتبہ اسکول کی سلور جوبلی تقریبات میں۔ یہاں آکر بہت سی معلومات میں اضافہ ہوا۔ ادارہ سعیدہ کے ڈائریکٹر سید محمد یعقوب نے بتایا کہ حکیم صاحب 196 کتب کے مصنف تھے جو اسلام، پاکستان، صحت، طب اور سائنس سے متعلق ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لیے 8کتب انگریزی میں لکھیں۔ اردو میں 46 کتب، 2 سفرنامے اردو میں 45کتابیں اور سفرنامے اردو میں نوجوانوں اور بچوں کے لیے صرف نونہالوں کے لیے 50 کتب لکھیں۔ مدینتہ الحکمہ ان کے ایک خواب کانام ہے۔ 350 ایکڑ رقبے پر محیط علم کے شہر میں ہمدرد پبلک اسکول، ہمدرد یونی ورسٹی، ہمدرد میڈیکل کمپلیکس بیت الحکمہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، بیت الحکمہ لائبریری، سائنس میوزیم، اسپورٹس اسٹیڈیم اور ہربل گارڈن جس میں ان جڑی بوٹیوں کو کاشت کیا گیا ہے جن سے دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔ عام طور پر حکیم سعید کے ملنے والے اعزازات کی تفصیل سے بھی لوگ واقف نہیں ہوئے ۔ ادارہ سعید نے ایک ہی جگہ ساری تفصیل جمع کر دی تھی۔ حکیم سعید کو نشان امتیاز سویلین 2000 میں دیا گیا۔1960 میں ستارہ امتیاز دیا گیا۔ 1982 میں کویت کی حکومت نے اسلامک میڈیسن ایوارڈ دیا، بہاولپور کے عوام کے جانب سے صادق دوست ایوارڈ کے علاوہ ترکی کی ٹیکنیکل یونی ورسٹی استنبول کی جانب سے سند اعزازی دی گئی۔
حکیم سعید نے جس کام کی داغ بیل ڈالی اب اس تناور درخت کے پھل اس معاشرے کو مل رہے ہیں۔ ایسٹرن میڈیسن کو حقیقت تسلیم کر لیا گیا ہے۔ حکیم عبدالحنان نے جس جانب اشارہ کیا کہ جب تعلیمی ادارے ختم ہوگئے تو حکمت بھی ختم ہوگئی لیکن اب حکیم صاحب کی کاوشوں سے ملک کے 6بڑے تعلیمی اداروں میں یہ تعلیم دی جا رہی ہے۔ جتنے ادارے بڑھیں گے ایسٹرن میڈیسن اتنا ہی پھلے پھولے گی۔ یہ سوال سب کے دل میں ہے کہ حکیم صاحب کو قتل کیوں کیا گیا…تو یہ ہمارا مسئلہ ہے ہم اس کا ماتم کرتے رہتے ہیں۔ امام حسین کو کیوں قتل کیا گیا، پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو کیوں قتل کیا گیا۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو کیوں شہید کیا گیا۔ لیکن ان سب کی شہادتیں ان کے کام کی گواہ ہیں اور ان کا کام شہادت دے رہا ہے کہ یہ لوگ تھے ہی راہ شہادت کے مسافر یہ سب شہید ہدف پاکر سعید ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے ادارے بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ رہیں گے۔