مزید خبریں

قرآن کا اساسی تصور

قرآن جس تصور کو پیش کرتا ہے‘ وہ مختصراً یہ ہے:
1۔یہ دنیا بے خدا نہیں ہے۔ اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے جو اس کا مالک‘ آقا‘ رب اور حاکم ہے۔ ہر شے پر اس کی حکومت ہے اور وہی اس کا حقیقی فرماں روا ہے۔ ساری نعمتیں اسی کا عطیہ ہیں۔ اس کا اختیار‘ کلی اور ہمہ گیر ہے۔ جس طرح وہ دنیا کی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے‘ اسی طرح وہ انسان کا بھی خالق‘ مالک اور حاکم ہے۔ اس مالک حقیقی نے انسان کو‘ ایک خاص حد تک اختیار اور آزادی دے کر‘ اس زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے اور باقی تمام مخلوقات کو اس کے تابع فرمان کیا ہے۔
2۔انسان کو خلافت کی ذمے داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے لائق بنانے کے لیے مالک حقیقی نے اسے اپنی ہدایت سے نوازا ہے اور اس کی رہنمائی صراط مستقیم کی طرف کی ہے۔ اسے بتایا گیا ہے کہ پورا جہان اس کے لیے ہے اور اس کے تابع ہے لیکن وہ خود خدا کے لیے ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ خدا کی بندگی اختیار کرے‘ اور اپنی پوری زندگی کو رب کی اطاعت میں دے دے۔ اس زندگی کی حیثیت ایک امتحان اور آزمایش کی سی ہے۔ اس میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے کو مالک کی مرضی کے تابع کر دے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ لگا دے۔ جس نے اس راستے کو اختیار کیا‘ وہ کامیاب و کامران ہے اور اس عارضی زندگی کے بعد ابدی راحت‘ اور چین اس کے لیے ہے۔ جس نے اس راہ سے انحراف کیا‘ وہ ناکام و نامراد ہے اور آنے والی ابدی زندگی میں جہنم اس کا ٹھکانا ہو گا۔
3۔یہ باتیں انسان کو ازل میں سمجھا دی گئیں۔ ان کا شعور اور احساس اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا۔ ان کی تذکیر اور بندگی رب کے راستے کی تشریح و توضیح کے لیے‘ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمدؐ تک‘ اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہا۔ ایک طرف انسان کو عقل اور سمجھ دی گئی کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی کے معاملات کی صورت گری کرے اور دوسری طرف خدا کے ان برگزیدہ بندوں (انبیا علیہم السلام) نے بڑی سے بڑی قربانی دے کر انسانیت کو سیدھی راہ پر لگانے کا کام انجام دیا۔ ہر ملک اور ہر قوم میں انبیا مبعوث ہوئے اور اس سنہری سلسلے کی آخری کڑی محمد عربیؐ ہیں۔
آپؐ ساری دنیا کے لیے بھیجے گئے اور سارے زمانوں کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کا وہی دین‘ یعنی اسلام لوگوں کے سامنے پیش کیا‘ جو اس سے پہلے پیش ہوتا رہا تھا۔ جن لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کر لی اور اسلام کو زندگی کے دین اور راستے کی حیثیت سے اختیار کر لیا‘ وہ ایک امت بن گئے۔ اب یہ امت مسلمہ کی ذمے داری ہے کہ وہ خود اپنی زندگی کا نظام اس ہدایت کے مطابق تشکیل دے‘ جو اللہ کی طرف سے محمدؐ لائے اور جس کا نمونہ آپؐ نے اپنی مبارک زندگی میں پیش فرمایا۔ اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتے رہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جس میں پوری دعوت موجود ہے‘ جس میں اللہ کا دین اپنی مکمل اور آخری شکل میں ملتا ہے‘ جس میں وہ ہدایت ہے جو خالق کائنات نے اتاری ہے اور جو تمام انسانوں کی دائمی خیر وفلاح کی ضامن ہے۔