مزید خبریں

سید مودودیؒ کا بدل نہیں

آج کل سوشل میڈیا پر طلباء دارالعلوم دیوبند کی انجمن تقویٰ الاسلام کے مناظرے کے ایک اشتہار پر بحث و مباحثہ جاری ہے ، اس تعلق سے بات اتنی بڑھی کہ مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند کو وضاحت کرنی پڑی ، مگر یہ وضاحت ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘ کے قبیل سے تھی ۔

مناظرہ بازی نا صرف مسلمانوں کے ساتھ حرام ہے بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی حرام ہے ، علمائے امت میں سے جو علماء اپنے زمانے کے مشہور و معروف مناظر رہے ہیں آخر عمر میں ان تمام علماء نے اپنے اس قدم سے توبہ و استغفار کی ، کسی زمانے میں امام غزالی بھی زبردست مناظر رہے لیکن آخر عمر میں انہوں نے بھی اس عمل سے توبہ و استغفار کی ، اسی طرح مولانا ابوالکلام ازاد بھی نوجوانی میں بڑے مناظر رہے مگر جیسے جیسے ان کا مطالعہ وسیع ہوتا گیا اسی رفتار سے انہوں نے مناظرے بازی سے توبہ و استغفار شروع کردی ۔ دارالعلوم دیوبند کا طریقہ بھی مناظر بازی کے تعلق سے یہی رہا ہے کہ دارالعلوم نے کبھی بھی اپنی طرف سے مناظرے کی شروعات نہیں کی ، یعنی دارالعلوم دیوبند سے متعلق علمائے کرام نے جتنے بھی مناظرے کیے ہیں وہ دفاعی پوزیشن میں کیے ہیں نہ کہ اقدامی پوزیشن میں ، امت مسلمہ کے اندر اتحاد و اتفاق کی سب سے خطرناک نفسیات اگر کوئی ہے تو وہ یہ ہی مناظرے بازی کی نفسیات ہے ، امت مسلمہ کے اندر باہمی اتفاق ممکن ہے اگر ہمارا مذہبی طبقہ معاملات کو صحیح طرح سے سلجھانا سیکھ لے ، امت مسلمہ میں جس قدر بھی افتراق و انتشار اور جھگڑا ہے اس تمام کی بنیاد میں ہمارے اکابر علماء ہی ہیں ، ہم دہلی کے اندر دیکھتے ہیں کہ اہل حدیث حضرات حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں حنفی عوام اہل حدیث امام کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں ، ایک دوسرے کے یہاں شادیاں کرلیتے ہیں حرم شریف میں تمام مسلمان غیر مقلد امام کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں اور کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا ، مگر کیا مجال ہے کہ مسلک پرست علماء￿ کرام اپنے اپنے شہروں اور ملکوں میں ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیں ، یہ ہو ہی نہیں سکتا ؟ یا یہ مسلک پرست علماء￿ کرام ایسا کوئی فتویٰ صادر کریں کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے ، دیوبندی بریلوی آہل الحدیث وغیرہ سب کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ، ایسے ’’مبنی بر توسع‘‘ فتوے کی آرزو میں کتنے ہی اتحاد واتفاق کے لیے کوشاں حضرات قبر میں دفن ہوگئے ۔

میرے نزدیک جماعت اسلامی ہرگز کوئی فرقہ نہیں ہے نہ ہی اس کا کوئی الگ عقیدہ ہے اور نہ ہی قرآن و احادیث کی کوئی الگ فقہی تشریح ، مولانا مودودی نے ایمان مفصل میں سے نہ تو کسی چیز کو حذف کیا اور نہ ہی کسی چیز کا اضافہ کیا ، یہ ہی حال ’’بنی الاسلام علی خمس‘‘ کا ہے یعنی ارکان خمسہ کے اندر بھی مولانا مودودی نے کوئی حذف واضافہ نہیں کیا ۔ اب سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کیا ہے ؟ جماعت اسلامی دراصل حنفی المسلک افراد کی ایک ایسی معتدل تنظیم ہے جو مسلمانوں کے اندر نظم اجتماعی کی روح Spirit of system پھونک دینا چاہتی ہے جو دین اسلام کو مسجد وخانقاہ سے نکال کر معاشرے کا جز بنا دینا چاہتی ہے اور بس ، مولانا مودودی کا کہنا تھا کہ سیکولرازم بھی کمیونزم کی طرح ہی انسانی ساختہ ہے ، سیکولرازم بھی کمیونزم ہی کی طرح غیر اسلامی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے علماء￿ کرام کے نزدیک کمیونزم تو ملعون ٹھہرا اور سیکولرزم محبوب ؟ مولانا مودودی نے اسی فکری تضاد کو ختم کرنے کے لئے حکومت الہیہ کا تصوّر دیا جو اسلام کے مکمل نظامِ حیات ہونے کا لازمی نتیجہ بھی ہے اور مسلمانوں کے سیاسی ومعاشرتی مسائل کا آخری حل بھی ، مگر مولانا کی اس مخلصانہ کوشش کو اکابر پرستانہ فتوے بازی اور مناظرے بازی کی نظر کردیا گیا ۔ اسی مناظرے بازی کی ذہنیت سے خود دیوبندیوں کے اندر بھی کئی طرح کے مکتبہ? فکر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ’’حیاتی‘‘ اور ’’مماتی‘‘ مسلک دیوبند ہی کے دو گروہ ہیں ، شومئے قسمت دیکھیے ! آج کل تبلیغی جماعت کے تعلق سے جو رویہ ہمارے محترم علماء￿ کرام نے اختیار کیا ہوا ہے وہ ماضی کی غلطیوں کا تسلسل ہے ، اس رویے کی بنیاد پر بالکل یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلک دیوبند میں ایک تیسرا گمراہ فرقہ ’’تبلیغی جماعت‘‘ بن چکا ہے ، دوسری طرف تبلیغی جماعت سے منسلک علماء￿ کرام کی نگاہ میں علمائے دیوبند گمراہ ہیں ، جماعت اسلامی کا خمیر مسلک دیوبند ہی سے اٹھا ہے جسکو آج ہم گمراہ فرقوں کی صف میں گنتے ہیں ۔ ( العیاذ باللہ ) مناظرے بازی کی اسی ذہنیت کی وجہ سے ہم نے بہت بڑے بڑے باکمال آدمی کھودیے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ مناظرے بازی اور اکابر تشریحات کی بنیاد پر دوسروں کو گمراہ قرار دینے کی مذکورہ خطرناک روش کو بیک قلم ختم کردیا جائے ، ورنہ ایک دن ایسا ہوگا کہ دنیا والوں کی نگاہ میں سب سے زیادہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی خود ہماری نگاہ میں کوئی مسلمان نہیں ہوگا ، دنیا میں اسلام کے سب سے طاقتور مذہب ہونے کے باوجود کوئی طاقتور مسلمان نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی اسلامی ملک ۔

مولانا مودودی پر سب سے مضبوط تنقیدجو کی ہے وہ ڈاکٹر محمد اسرار صاحب مرحوم اور مولانا وحید الدین خان صاحب مرحوم نے کی ہے ، ان ہی دونوں حضرات نے مولانا مودودی صاحب مرحوم پر علمی گرفت بھی کی ہے ، مذکورہ دونوں حضرات سے پہلے مولانا مودودی کے تمام ناقدین خواہ وہ اصاغر ہوں یا اکابر سب کے پاس مولانا مودودی کے خلاف ایک ہی فرد جرم تھی وہ یہ کہ ’’مولانا مودودی گستاخ صحابہ ہیں ‘‘ یا یہ کہ مولانا مودودی ’’صحابہ کرام کو معیار حق نہیں مانتے ‘‘ اور بس ! دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فرد جرم کے حق میں بھی ہمارے محترم علماء￿ کرام کے پاس کوئی بہت ٹھوس دلائل نہیں تھے بس اکابر پرستی تھی ۔ یہ ایک پیچیدہ بحث ہے جس کو ہم جان بوجھ کر سائڈ کر رہے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دونوں علماء کے بعد ہی ہمارے محترم علمائے دیوبند کو مسئلے کی اصل نوعیت کا پتہ چلا ، آج مولانا مودودی پر ’’ تعبیر دین‘‘ کو بدلنے کا جو راگ الاپا جا رہا ہے یہ دراصل مولانا وحید الدین خان صاحب کی ایجاد کردہ ایک تعبیر ہے ۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیے تعبیر کی غلطی ، از مولانا وحیدالدین خاں ) مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ مذکورہ دونوں ہی حضرات نے مولانا مودودی کے ایمان اور ان کی نیت پر کوئی حملہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی منفی حکم لگایا یعنی یہ نہیں کہا کہ ان کے پیچھے نماز نہیں ہوگی ، ان سے شادی بیاہ نہ کریں ، وہ گمراہ ہیں ، جہنمی ہیں ، اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔ بلکہ زبردست علمی تنقید کے باوجود دونوں ہی حضرات نے مولانا مودودی کی خدمات کو سراہا بھی ہے ، ان سے تعلقات بھی رکھے ہیں اور صحیح العقیدہ مسلمان بھی مانتے ہیں ۔ آج برصغیر پاک وہند بنگلہ دیش میں جو اسلام پسند طاقتیں اسلام کے مکمل نظامِ حیات ہونے کا برملا اعلان کر رہی ہیں اور اس مشن کو لیکر حرکت میں ہیں ، یہ تمام طاقتیں در حقیقت مولانا مودودی کے لٹریچر اور ان کے نظریہ دین سے متائثر ہیں ، مولانا مودودی کی خدمات صرف یہ ہی نہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے اندر کمیونزم کی کمر توڑ کر رکھ دی یا قادیانیوں کے خلاف معرکہ آراء کتابچہ لکھ کر قادیانیوں کو بے دست و پا کردیا یا مغربی تہذیب پر زبردست علمی چوٹ کی ، بلکہ مولانا مودودی کی اہم خدمت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس دعوے ( اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ) کو اپنے خونِ جگر سے ثابت بھی کیا ، اپنے قلم کی روانی اور زور استدلال کی بنیاد پر پورے وثوق سے کہا کہ ہاں اسلام مکمل نظامِ حیات ہے اور یہ رہے اس کے تفصیلی دلائل ۔ مولانا مودودی کی اس اہم خدمت کو ان کے دونوں شدید ناقد ڈاکٹر محمد اسرار مرحوم اور مولانا وحید الدین خان صاحب مرحوم بھی مانتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ سے متعلق کسی بھی عالم دین سے معلوم کیجیے کہ کیا دین اسلام مکمل نظامِ حیات ہے ؟ وہ فوراً جواب دیگا کہ ہاں دین اسلام مکمل نظامِ حیات ہے ۔ اب اس سے اگلا سوال پوچھیے کہ مولانا قاسم نانوتوی سے لیکر آج تک کسی ایک عالم دین کی کوئی ایک کتاب ایسی ہے جو دین اسلام کے مکمل نظامِ حیات ہونے کو تفصیلاً بتلاتی ہو ؟ یقین جانیے آپ کو کوئی متعین جواب نہیں ملے گا اور نہ ہی کوئی کتاب ۔

جماعت اسلامی کے ارکان واضح طور پر کہتے ہیں کہ ہم مولانا مودودی کے لٹریچر اور ان کے نظریات کے ایسے پابند نہیں ہیں کہ یہ پابندی ’’پرستی‘‘ سی محسوس ہونے لگے یعنی ان سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے ، یہ تو جماعت اسلامی کا واضح موقف ہو?ا اور ماشاء￿ اللہ بہت خوب موقف ہے ۔

اب میں اپنے انتہائی محترم علمائے دیوبند سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم بھی اپنے اکابر کے ساتھ ایسا ہی لچکدار رویہ اختیار کر سکتے ہو ؟ کیا آپ کے اندر بھی ایسی جرات ہے کہ دلائل کی بنیاد پر اپنے کسی بھی بزرگ سے اختلاف کر سکیں ؟ میں اپنے دیوبندی حضرات کے سامنے ایک سوال رکھتا ہوں ، وہ یہ کہ مولانا حسین احمد مدنی ’’متحدہ بھارت‘‘ کے قائل تھے ، جبکہ مولانا اشرف علی تھانوی مسٹر محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان کے حمایتی تھے تو آپ لوگ مذکورہ دونوں بزرگوں میں سے کس کے موقف کو صحیح یا غلط کہتے ہیں ؟ وہ بھی دلائل کی بنیاد پر ۔ موجودہ بدترین اور پاگل پن والی صورتحال یہ ہے کہ ہم شخصیت پرستی کے مرض میں ایسے مبتلا ہیں کہ ہم کو دونوں ہی بزرگ صحیح لگتے ہیں مزید برآں یہ بھی کہتے ہیں کہ غلطی ہماری ہے کہ ہم ان بزرگوں کو سمجھ ہی نہیں پائے ۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے بدترین ذہن کے ساتھ دین اسلام کو کیسے غالب کیا جائے گا ؟ اس قسم کی ’’دوکشتیوں والی ذہنیت‘‘ کے ساتھ کیسے قومی اور بین الاقوامی فیصلے کیے جائیں گے ؟ صحیح اور غلط کے فیصلے کیسے ممکن ہونگے ؟

اگر کوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے ؟ تو میں یہ ہی جواب دونگا کہ مذہبی سطح پر ’’مسلک پرستی‘‘ اور عوامی سطح پر ’’برادری ‘‘ اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، ایک غیر مسلم تعلیم یافتہ شخص مسلمان ہونا چاہے تو مسالک کی دلدل اس کو بہت پریشان کرتی ہے اور اگر کوئی عام آدمی مسلمان ہوناچاہیے تو برادری ازم اس کو پریشان کرتا ہے اور دونوں ہی چیزیں غیر اسلامی ہیں ۔

ہا ں مناظرے بازی حرام ہے

راقم الحروف کازیر نظر مضمون جب بعنوان ’’دیوبند مناظرے بازی کی لیپٹ میں‘‘ (جسارت میں سرخی تبدیل ہے )شائع ہؤا تو اس پر ?ہل علم کی طرف سے مختلف قسم کے تبصرے اور سوالات آئے ان تمام میں سے ہم صرف ایک ہی سوال کا جواب دیں گے ، دراصل ہر سوال کا جواب دینے سے ’’سوال وجواب‘‘ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتاہے اس لئے سوالوں کے جواب دینے سے میں حتیٰ الامکان بچتا ہوں دوسرے ہر سوال کا جواب دینا بجائے خود بیوقوفی ہے البتہ بعض سوالات ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا جواب دینا ضروری ہوتاہے خاص طور پر اس وقت جب کہ شرعی زبان میں کسی چیز کے حرام و حلال ہونے کے الفاط استمعال کیے گئے ہوں ۔

مسئلے کی نوعیت: راقم الحروف نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ’’مناظرے بازی نا صرف مسلمانوں کے ساتھ حرام ہے بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی حرام ہے ‘‘ ۔ اسی جملے پر بعض اہل علم کو اعتراض ہے کہ مناظرے سے احقاق حق و ابطال باطل ہوتا ہے اسلئے یہ چیز ضروریات میں سے بھی ہے اور علماء￿ اسلام کا فرض منصبی بھی ہے ۔ سب سے پہلے میں یہ واضح کردوں کہ میں نے جو حرام و حلال کا لفظ استعمال کیا ہے وہ خالص فقہی اور قانونی پیرائے میں نہیں بلکہ اس کی کراہت و بیہودگی کو مؤکد کرنے کے لئے استعمال کیا ہے ناکہ شرعی حکم بتانے کے لیے ، یعنی اگر علماء اسلام ٹھوس دلائل و براہین اور سنجیدگی کے ساتھ اسلام و مسلمانوں کے نفع و ضرر کو سامنے رکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مناظرہ ایک ضروری چیز ہے ، تو ہم اپنے محترم علماء کرام کے سامنے سرتسلیم خم کردیں گے ۔

مناظرہ بازی سے کیا مراد ہے ؟ مناظرہ بازی گفتگو کا وہ طریقہ ہے جس میں ایک عالم دین دوسرے عالم دین کو جھکانے قائل کرنے اور اپنی علمیت جھاڑنے کے لئے بحث کرتا ہے دلائل دیتاہے ، ناکہ خوف خدا کے تحت فریضہ دعوت کی تکمیل کے لیے یا مسلمانوں کے درمیان اصلاح کے لیے ۔

قارئین کرام ! آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کس طرح کی گفتگو پسند کرتا ہے ؟ جب ہم اس سوال کے جواب کو قرآن کریم میں تلاش کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے تو آہستہ بولنے اور سنجیدہ گفتگو کرنے کا باقاعدہ حکم دیا ہے اور چیخنے چلانے کو گدھوں کی مکروہ آواز سے تشبیہ دی ہے ۔ ( سورہ لقمان ) قرآن مجید نے ایک جگہ حکم دیا ہے کہ اہل کتاب کے ساتھ بحث نہ کریں ہاں اچھے طریقے سے گفتگو کرسکتے ہیں(العنکبوت ) مذکورہ آیتوں کے علاوہ بھی قرآن میں کم از کم پانچ آیتیں اور اسی معنی مفہوم میں آئی ہیں ۔دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر ’’مناظرہ کی شرعی حیثیت‘‘ کے بارے میں مندرجہ ذیل فتویٰ موجود ہے ۔

(مناظرہ ) ’’فی نفسہ تو فرض وواجب نہیں اگر کسی جگہ ایسے حالات پیش آجائیں کہ مناظرہ کرنا ناگزیر ہوجائے اور دلائل و براہین کی روشنی میں تمام شرائط ملحوظ رکھ کر مناظرہ ہو تو اس کا درجہ موقعہ محل کو ملحوظ رکھ کر طے کیا جائے گا۔ ‘‘ اس فتوے کے اعتبار سے مناظرہ فی نفسہ فرض و واجب تو بالکل نہیں دوسرے موقعہ محل کو ملحوظ رکھتے ہوئے جیسے مناظرہ جائز ہوسکتا ہے بعینہ اسی طرح مناظرے کو حرام بھی قرار دیا جاسکتاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ علماء￿ اسلام پر جو چیز فرض و واجب ہے وہ ہے بغیر کسی لالچ کے دعوت و تبلیغ اور وعظ ونصیحت ہے ۔

آج کل پاک بھارت بنگلہ دیش کے علماء کرام میں نہ جانے کہاں سے مناظرے بازی کا بدترین چلن عام ہوگیا اور اب تو ہر مسلک کی طرف سے باقاعدہ یہ بھی کہا جانے لگا کہ ہمارے اکابر نے فلاں مسلک کے اکابرین کو دھول چٹائی یا یہ کہ ہمارے اکابر کی زندگی کا مقصد ہی مفروضہ ’’فرق باطلہ ‘‘ اور مفروضہ ’’گمراہ شخصیات ‘‘ کی بیخ کنی اور گرفت تھی ، برصغیر میں اس بے بنیاد رجحان کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدارسِ اسلامیہ کی نئی پیداوار بہت تیزی سے مناظرے بازی کی طرف لپکنے لگی چھوٹی چھوٹی باتوں پر گمراہی و ضلالت کے فتوے صادر کرنے لگی ، اپنے پسندیدہ اکابر کو حرف آخر سمجھنے لگی ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اکابر علماء کا عمومی رویہ اس رجحان کے بالکل برعکس ہے ۔

علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب الغزالی میں امام غزالی کے متعلق لکھتے ہیں کہ

’’امام صاحب 499 ہجری میں جب مقام خلیل میں پہنچے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مزار مبارک پر حاضر ہو کر تین باتوں کا عہد کیا

1۔ کسی بادشاہ کے دربار میں نہ جاؤں گا

2۔ کسی بادشاہ کا عطیہ نہ لوں گا

3۔ کسی سے مناظرہ اور مباحثہ نہ کروں گا چنانچہ مرتے دم تک ان باتوں کے پابند رہے ( ، الغزالی ، صفحہ 38 مصنف علامہ شبلی نعمانی )

مولانا قاسم نانوتوی کے زمانے میں علماء￿ کرام نے اور خود حضرت نانوتوی نے عیسائیوں اور ہندوؤں کے مبلغین سے تو مناظرے ضرور کیے مگر مسلمانوں کے ساتھ کسی مناظرے کی روداد ہمیں نہیں ملتی ، ہاں سرسید احمد خان کا رد ضرور کیا ہے مگر عالمانہ خط و کتابت کے ساتھ اور وہ بھی سر سید کی ملی خدمات کو سراہتے ہوئے اور ان کے اخلاص کی داد دیتے ہوئے ۔ شیخ الہند مولانا محمودالحسن دیوبندی (وفات 30/ نومبر 1920 )نے مالٹا کی جیل کے اندر تنہائیوں میں طویل غور و فکر کے بعد زندگی کے جو اہم اسباق سیکھے تھے ان میں سے تین سبق یہ تھے کہ

1۔ اب عسکریت کے بجائے ڈائلاگ (گفتگو ، افہام وتفہیم) کرونگا ۔

2۔ جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام سے قریب کرنا ہے ۔

3۔ مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کرنا ہے ۔

مولانا حسین احمد مدنی مرحوم نے بھی زندگی بھر کوئی مناظرہ نہیں کیا بلکہ مشہور زمانہ بحث ’’متحدہ قومیت‘‘ کے بارے میں انتہائی ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے علامہ اقبال کے ساتھ خط و کتابت کی تھی ۔ مولانا مودودی کے ساتھ بھی خط و کتابت ہی کی گئی تھی اور وہ بھی بہت علمی پیرائے میں ۔ مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم (وفات 20/ جولائی 1943 ) اگر مناظرے بازی میں الجھتے تو ایک ہزار سے زائد کتابیں نہ لکھ پاتے اور اصلاح و تصوف کا وہ عظیم کارنامہ انجام نہ دے پاتے جو اللہ تعالیٰ کو ان سے لینا تھا ۔ خیال رہے کہ بعض محققین کے مطابق حضرت تھانوی نے 910کتابیں تصنیف فرمائی ( یہ اختلاف زیادہ اہم نہیں)

خود مولانا مودودی نے بھی اپنے آپ کو زندگی بھر مناظرے بازی سے بچا کر رکھا ہاں اپنے موقف کو ظاہر کرنے کے لیے اپنے قلم کو بھر پور استعمال کیا ، اگر مولانا مودودی مناظرے بازی میں الجھتے تو ہرگز ایسا طاقتور اسلامی لٹریچر تیار نہ کرپاتے جو بالآخر آگے چل کر برصغیر کے اندر مسلمانوں کی سب سے مضبوط منظم اور باشعور تنظیم کی بنیاد بنا ۔

حقیقت یہ ہے کہ مناظرے بازی ضد اور ہٹ دھرمی کی ایک قسم ہے جس سے مخالف کو ہرگز قائل نہیں کیا جاسکتا ، ماضی کے جن علماء￿ کرام نے مناظرے کیے ان سے فائدہ تو نہیں ہؤا مگر ضد اور ہٹ دھرمی کی ذہنیت ایسی پیدا ہوئی کہ اصلاح و محاسبے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے امت مسلمہ کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سخت نقصان پہنچا ، بہت سے لوگ ضمیر کی پکار پر سچائی کو تسلیم کرلیتے ہیں مگر جب معاملہ ضد اور ہٹ دھرمی کی صورت اختیار کرلیتا ہے تو پھر معاملہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے ۔ ابھی حال ہی میں مولانا طاہر حسین گیاوی ( متوفی 10/ جولائی 2023 ) صاحب کا انتقال ہؤا جن کو بعض لوگ غلطی سے مناظر اسلام اور متکلم اسلام لکھ دیتے ہیں جب کہ وہ ہرگز نہ ’’مناظر اسلام‘‘ تھے اور نہ ہی متکلم اسلام ، بلکہ وہ مناظر دیوبند اور متکلم دیوبند تھے ، مولانا مرحوم کی وجہ سے کئی مقامات پر دیوبندی اور بریلوی حضرات دست و گریباں ہوئے اور اخبارات میں خبریں چھپی ۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ 23/ ستمبر 2023