مزید خبریں

جماعت اسلامی ایک عالمگیر تحریک

جماعت اسلامی سید ابوالاعلی مودودیؒ نے 26اگست 1941 میں 75افراد کے ہمراہ انتہائی نامساعد حالات میں قائم کی لیکن ان 75افراد میں جوش ولولہ اور دین کو اللہ کی زمین پر نافذ کرنے اور اسلامی انقلاب کو برپا کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ان سب کی جدوجہد کا مقصد یہی تھا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسلامی تعلیمات کا سیاست، ریاستی امور سمیت زندگی کے تمام معاملات میں اطلاق ہونا چاہیے۔

بلاشبہ دور جدید کی سب سے بڑی اسلامی تحریک نے دنیا بھر کے خاص طور پر پڑھے لکھے طبقے کو متاثر اور متوجہ کیا اور آج یہ تحریک ایک عالمگیر تحریک بن کر ابھری ہے۔جماعت اسلامی ایک دستوری جماعت ہے وہ پاکستان کی واحد جماعت ہے جو اپنے دستور پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہے۔ جماعت اسلامی کے ارکان کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے اور پوری عمارت اس پر قائم ہے۔ ان کی پہچان حب الوطنی، اسلامی اقدار اور نظریہ پاکستان سے وابستگی ہے۔ اوپر سے لیکر نیچے تک شورائی نظام ہے جس کی وجہ سے تمام فیصلے احسن طریقے سے بخوبی انجام پاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کا دستور 1957 میں مرکزی مجلس شوری کے اجلاس میں منظور کیا گیا تھا۔ اس سے قبل مختصر دستور تاسیس سے لیکر قیام پاکستان تک اور پھر آزادی کے بعد مئی 1957 تک نافذ رہا۔ وقتاً فوقتاً دستور میں ترمیم بھی ہوتی رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے دستور میں کسی خفیہ طریقے سے ملک میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی اور نہ ہی جماعت اسلامی کی پالیسی میں فساد فی الارض کی کوئی گنجائش ہے۔ پاکستان کے دستور میں بھی مولانا مودودی ؒ اور 31علماء کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں 22نکات کی منظوری ایک عظیم کارنامہ جس کی وجہ سے پاکستان کا دستور سیکولر نہیں بن سکا۔

جماعت اسلامی پاکستان کی وہ واحد جمہوری جماعت ہے جس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تاسیس سے لیکر اب تک دستور کے مطابق ایک دن کی تاخیر کیے بغیر امیر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ارکان جماعت پانچ سال کے لیے خفیہ رائے دہی کے ذریعے امیر کا انتخاب کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی حقیقی معنوں میں ایک انقلابی تحریک ہے جو فرسودہ نظام کو تبدیل کر کے اس کی جگہ وہ نظام نافذ کرنا چاہتی ہے جو اللہ کے رسول ؐ نے مدینے کی ریاست میں عملی طور پر نافذ کیا تھا جہاں زکوٰۃ باٹنے والے تو موجود تھے لیکن زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں تھا۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد کا محور ومرکز بھی یہی ہے کہ وہ دین کو بطور نظام حیات قائم کرنا چاہتی ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب بنا کر دنیا میں بھیجا اور اس کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو عملی طور پر نافذ کرے۔

سید مودودی ؒ کی تحریک ناصرف یہ کہ پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے اور تیزی کے ساتھ پھل پھول رہی ہے اور دعوتی، تربیتی، تنظیمی، خدمتی، سیاسی وعلمی سرگرمیوں کے ذریعے لوگوں کو منظم کر کے انہیں ایک بڑے انقلاب کے لیے تیار کر کے ان کی ذہنی اور شعوری تربیت کی جارہی ہے۔ سید مودودی ؒ کی تقریریں اور ان کی کتابیں امام حسن البنا شہیدؒ، عبدالقادر عودہ شہیدؒ، سید قطب شہیدؒ، پروفیسر محمد قطب اور شیخ محمد الغزالیؒ جیسے مصری قائدین اور دنیائے عرب کے دیگر علماء کے لٹریچر کے ساتھ اسلامی تحریکوں فکری وحدت کا منبع بنیں اور دنیا بھر کے مسلم نوجوانوں کو فکری سطح پر بہت سہارا ملا اور سید مودودی ؒ کی فکر کو جو اپنی حقائق پسندی اور دانش مندی کی وجہ سے ممتاز مقام رکھتی تھی اسے خوب پزیرائی حاصل ہوئی۔ سید مودودی ؒ کے لٹریچر نے قومیتی اور لادینی فکر کو بے اثر بنانے اور اسے ہزیمت سے دوچار کرنے میں زبردست عملی کردار ادا کیا۔ مولانا مودودی ؒ کی اس دعوت اور فکر کو دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچا انہوں نے اسلامی تعلیمات کو ایسے دلنشین انداز میں پیش کیا کہ وہ مخالفین کے دلوں میں بھی گھر کرتی چلی جاتی۔ تمام باطل نظریات کے خلاف مولانا مودودی کا جہاد بنیادی طور پر قلم کے ذریعے تھا۔ انہوں نے ایک سو کے لگ بھگ تصانیف اور قرآن مجید کی معرکہ آرا تفسیر تفہیم القرآن لکھی جس کی تکمیل میں 30سال کی محنت، تحقیق اور جستجو صرف ہوئی۔ چھے جلدوں پر مشتمل اس تفسیر کی پہلی دو جلدوں میں بہت اختصار پایا جاتا ہے اور تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ البتہ تیسری جلد سے یہ اپنی اصل اٹھان کی طرف مائل بہ پرواز ہے، جس کا تسلسل آخر تک قائم ہے۔ اس تفسیر کی سب سے اہم خصوصیت اس کا دعوتی مزاج ہے۔ قوانین شریعت کی حکمتوں کو کھول کر جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام کی حقانیت کا قائل کرتی ہے اور قاری کو اس دور میں ایک جدید فلاحی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے سرگرم عمل کرنے کے لیے ابھارتی ہے۔ علوم ِ قرآن سے دلچسپی رکھنے والاجدید تعلیم یافتہ طبقہ جو مشکل عربی الفاظ سے نابلند ہوتا ہے اس کے لیے تفہیم القرآن پہلی سیڑھی ہے اور اس کے مطالعے سے اس کے دل ودماغ اور شعور میں بڑی تبدیلی واقع ہوتی ہے اور دیگر تفاسیر کا مطالعہ آسان ہوجاتا ہے۔

بلاشبہ سید مودودی ؒ نے عہد حاضر میں امت کی بیداری اور دین کی طرف اس کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا انہوں نے دلیل کا راستہ اختیار کیا، عصر حاضر کے علم کلام سے استفادہ کیا اور اسے اسلامی علم کلام کے سانچے میں ڈھال کر اظہار وبیان کا منفرد اسلوب اختیار کیا۔ مولانا مودودی ؒ نے جماعت اسلامی اس لیے قائم کی کہ منظم شر کا مقابلہ منظم نیکی سے کیا جائے۔ آپ نے صاف طور پر کہا کہ ’’ہماری دعوت، دعوت الی اللہ ہے۔ یہ دعوت اسوہ حسنہ کی طرف دعوت ہے۔ ہماری دعوت شخصیت پرستی کی طرف نہیں بلکہ مقصدکی طرف ہے اور مقصد قرآن سے لیا گیا ہے‘‘۔ مولانا مودودی ؒنے جماعت کو کوئی فرقہ، گروہ یا مسلک نہیں بننے دیا بلکہ تمام مسلم مکاتب فکر کے افراد کو دعوت دی کہ وہ ایک بڑے مقصد کے حصول کے لیے ایک پرچم تلے جمع ہوجائیں۔ اسلام پر تشدد پسندی کے الزام کا مولانا مودودیؒ نے جس ایمانی جرأت اور تقابلی وتجزیاتی مطالعے کے ذریعے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کی صورت میں جواب دیا ان کا یہ استدلال آج بھی قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معرکہ آرا کتاب میں مولانا مودودی ؒنے ایک جانب ہندو مہا سبھائیوں کی یلغار کے پس پردہ محرکات کا خاکہ پیش کیا، دوسری جانب مغربی استعمار کے ذہن میں موجود توسیع پسندانہ عزائم کی سیاسی ومذہبی بنیادوں کو بے نقاب کیا، تیسری جانب مسلمانوں میں موجود ذہنی شکست خوردگی کو دور کرنے کے لیے انہیں عقلی سطح پر دعوت فکر دی وہ روز اوّل سے مکالمے، جدوجہد، آئین وضابطے کی پابندی کے قائل تھے اور زندگی بھر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل رہے۔ موجودہ حالات میں جب چاروں طرف اسلام دشمن قوتیں سر اٹھا رہی ہیں اور مسلم امہ پر چھائے ہوئے سیاہ بادلوںکو نگاہ میں رکھیں تو سمجھ میں آجائے گا کہ سید مودودی ؒ کا راستہ اور فکر ہی وہ راستہ ہے جس پر عمل پیرا ہوکر امت مسلمہ کے آگے بڑھنے کے مواقع زیادہ ہیں اور ہم ان اصولوں پر عمل پیر ا ہو کر زیادہ سے زیادہ افراد کو اپنا ہمنوا بھی بنا سکتے ہیں۔ سید مودودی ؒ اور ان کی جماعت درحقیقت عہد حاضر میں ایک عالمگیر تحریک کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جو مسلمانوں کو ایک چراغ راہ دکھاتی نظرآتی ہے۔ ایسا چراغ جس کی روشنی میں ایمان، عمل، خودداری، بصیرت، جدوجہد، شعور اور عدل کی راہیں صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔