مزید خبریں

شہادت امام حسین کا عظیم پیغام

لیاقت بلوچ،نائب امیر، جماعت اسلامی پاکستان
کربلا کے سانحہ میںشہادت حسینؓ اور خاندان پیغمبر اسلام کی شہادتیں تاریخ اسلامی کا اہم ترین واقعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہؐ پر دین کی تکمیل کر دی اور سلسلۂ نبوت اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ اسلام نے انسانیت کو ملوکیت کی بجائے خلافت کا بابرکت نظام عطا کیا۔ خلفائے راشدین اور خلافت کے سلسلے کے بعد خلافت موروثی بنیاد پر یزید کو منتقل کی گئی لیکن یزید کی خدمت عالم اسلام میں قبول نہ کی گئی۔ اہل کوفہ نے یزید کی حکمرانی سے تنگ آکر سیدنا امام حسینؓ کو خط لکھے اور وفود بھی ان کی خدمت میں بھیجے، ان لوگوں کے بے حد اصرار پر امام حسینؓ نے عراق کی طرف رخت سفر باندھا۔ اہل کوفہ کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن عباسؓ اور سیدنا امام حسینؓ کے تایا زاد بھائی اور بہنوئی سیدنا عبداللہ بن جعفرؓ کی پختہ رائے تھی کہ وہ قابل اعتماد اور اپنے موقف پر قائم رہنے والے لوگ نہیں ہیں۔ نظام حکومت کے حالات، اسلامی، انسانی، سماجی قدریں اس قدر تلپٹ ہورہی تھیں کہ حق کے قیام کے لیے جدوجہد اور قیام کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ امام حسینؓ جب عراق کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں اس دور کا مشہور شاعر فرزدق ملا جو کوفہ سے آرہا تھا۔ وہ امام حسینؓ کا بڑا مداح تھا اس سے آپ نے کوفہ کے حالات دریافت کیے تو اس نے صاف الفاظ میں کہا کہ ’’ان کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں مگر تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہیں‘‘۔ یہ ایسا مرحلہ تھا کہ امام حسینؓ کے لیے واپسی ممکن نہ تھی اور اللہ تعالیٰ کو ابھی اپنے دین کی حفاظت اور حق کی صاف شاہراہ کو قائم رکھنا مطلوب تھا اور یہ عظیم مشن رسول اللہؐ کے براہ راست تربیت یافتہ نواسۂ رسول کے علاوہ کون انجام دے سکتا تھا۔
10 محرم الحرام، یوم عاشور تاریخ اسلام کا المناک دن ہے۔ یزید نے اپنی ناجائز حکمرانی کی بقا کے لیے ظلم وجور، وحشت والم کی انتہا کردی۔ امام حسینؓ اپنے خاندان کے ساتھ حق کے تحفظ کے لیے شہادتوں کے بلند مقام پر فائز ہوئے اور قیامت تک کے لیے سربلند ہوگئے جبکہ ذلت و رسوائی یزید کے لیے دائمی مقدر بن گئی۔ شہیدان کربلا بظاہر قتل ہوگئے، ہماری نظروں میں وہ شہید ہوگئے لیکن عالم غیب میں وہ اعلیٰ زندگی سے سرفراز ہوگئے اور سراسر ایک حیات جاوداں پاگئے۔ پوری امت اس غم اورصدمے کو اپنا غم اور صدمہ قرار دیتی ہے۔ شہادت حسین کے عظیم فلسفے اور پیغام کو جاننے کی بہت کم کوشش کی جاتی ہے۔ خراج تحسین، عزاداری، غم واندوہ کا اظہار بھی فطری ہے لیکن اپنوں اور اغیار کی کوششوں کی وجہ سے امت میں اس عظیم سانحے کو متنازعہ بنانے کی سازشیں جاری رہتی ہیں۔ یزید تو عبرت بن گیا لیکن یزیدیت کے پیروکار فرقہ پرستی اور فساد کو پھیلانے کا شیطانی کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔ ماہ محرم میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ غم صرف اہلِ تشیّع کا ہے جبکہ اکابرین اہل سنت، مفکرین، مفسرین کی آرا اور موقف کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے امام حسینؓ کے حوالے سے اپنی کتاب شہید اعظم میں تحریر کیا ہے کہ
’’بغیر کسی مبالغے کے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کسی المناک حادثے پر نسل انسانی کے اس قدر آنسو نہ بہے ہوں گے جس قدر اس حادثے پر بہہ چکے ہیں۔ تیرہ سو برس کے اندر تیرہ سو محرم گزر چکے اور ہر محرم اس حادثے کی یاد تازہ کرتا ہے۔ امام حسینؓ کے خونچکاں حادثے سے کربلا میں جس قدر خون بہا تھا اس کے ایک ایک قطرے کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم کا ایک سیلاب بہا چکی ہے‘‘۔
مولانا ابوالکلام آزادؒ نے حْر کے لشکر کے سامنے امام حسینؓ کا ایک خطبہ ان کی لفظوں میں تحریر کیا ہے: ’’اے لوگو! اگر تم تقویٰ پر ہو اور حق دار کا حق پہچانو تو یہ خدا کی خوشنودی کا باعث ہوگا۔ ہم اہل بیعت ان مدعیوں سے زیادہ حکومت کے حق دار ہیں۔ ان لوگوں کا کوئی حق نہیں، یہ تم پر ظلم وجور سے حکومت کرتے ہیں لیکن اگر تم ہمیں ناپسند کرو، ہمار ا حق نہ پہچانو اور اب تمہاری رائے اس کے خلاف ہوگئی ہو جو تم نے مجھے اپنے خطوط میں لکھی اور قاصدوں کی زبانی پہنچائی تھی تو میں واپس چلے جانے کو بخوشی تیار ہوں‘‘۔ لیکن عہد الہی کو شکستہ کرنے والے، اللہ کے بندوں پر گناہ اور سرکشی سے حکومت کرنے والے شیطان کے پیروکار بن گئے۔ بدعہدی کرنے والے ہر حد سے گزر جانے کے لیے تیار تھے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کے متنوع موضوعات پر نقطۂ نظر کے اظہار کا حق ادا کیا ہے۔ ان کے نزدیک اسلامی معاشرے میں امام حسینؓ کا جو مقام تھا اس کے مقابلے میں یزید کی کسی پر نگاہ نہیں پڑسکتی تھی اور یزید مسلمانوں میں بالکل بے حیثیت تھا، اگر مسلمانوں پر بظاہر مسلمان حکمران ہوں لیکن اس کے طور طریقے اسلامی تعلیمات سے انحراف کے ہوں، تو اس کے خلاف اقدام کے لیے ہمارے پاس واحد نمونہ امام حسینؓ کی ذات ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہو اور غیر اسلامی طریقے سے چلائی جارہی ہو تو مسلمانوں کو سخت الجھنیں پیش آتی ہیں۔ قو م مسلمان ہے، حکومت مسلمان کے ہاتھ میں ہے لیکن چلائی غیر اسلامی طریقے پر جارہی ہو تو اس حالت میں ایک مسلمان کیا کرے، اگر سیدنا امام حسینؓ نمونہ پیش نہ کرتے تو کوئی صورت رہنمائی کی نہ ہوتی۔
سید مودودیؒ نے یہ بھی رہنمائی دی اور تحریر کیا ہے کہ مسلمانوں میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ امام حسینؓ کے سوا ہمارے پاس کوئی نمونہ نہیں۔
’’یہ سیدنا حسینؓ کا نمونہ ہی تو ہے کہ جو مسلمانوں کی حکومت کے بگاڑ کے وقت رہنمائی کرتا ہے اگر اس نمونہ کو بھی بگاڑ دیا جائے تو نمونہ کہاں سے آئے گا۔ معاملہ صرف یہ نہیں کہ جگر گوشہ رسولؐ کو قتل کردیا گیا اورہم نوحہ خوانی کے لیے بیٹھے ہیں بلکہ نمونہ حاصل کرنے کا ہے‘‘۔
سیدنا علیؓ اور سیدنا امام حسینؓ کو اپنی زندگی میں مختلف حالات کا سامنا رہا۔ صرف ان ہستیوں کی یاد منانا کافی نہیں بلکہ اپنے اپنے معاشروں میں اس پیغام کو جاننا چاہیے کہ سیدنا علیؓ کا نمونہ کن حالات میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اور سیدنا حسینؓ کا نمونہ کن حالات میں ہمارے کام آتا ہے۔ انہی نمونوں کو سامنے رکھ کر امت کی اصلاح کا دروازہ کھلا رہے گا۔
سیدنا علیؓ کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف ہو تو کیا کرنا چاہیے اور سیدنا امام حسینؓ کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی حالت بگڑ رہی ہو تو مسلمانوں کا کام تماشبین بن کر بیٹھنا نہیں بلکہ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اصلاح کے لیے کھڑا ہوجائے خواہ وہ اکیلا ہی ہو اورخواہ نتیجہ کچھ بھی نکلے۔
مولانا سید مودودیؒ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ امام حسینؓ کی عظیم قربانی کا پیغام جانیں اور سبق حاصل کریں۔ فقط رنج وغم کا اظہار نہیں بلکہ امامؓ اور ان کے خاندان کی عظیم قربانی کے مقصد شہادت کو ہمیشہ سامنے رکھا جائے۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ہر بار لکھا ہے کہ یزید کی ولی عہدی اسلامی معاشرے میں ایک بہت بڑے انحراف کی بنیاد تھی۔ اللہ کی بادشاہی کی نفی اور انسانی بادشاہت کا آغاز تھا۔ اسی خرابی کا انجام کار نتیجہ بہت ہی المناک برآمد ہوا۔ امام حسینؓ نے سراسر ایک دینی کام کیا اسی لیے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی۔ ؎

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اعلیٰ مولانا محمد طیب قاسمیؒ نے ’’شہید کربلا اور یزید‘‘ کے عنوان سے کتاب قلم بند کی، انہوں نے اس حوالے سے اپنے علم، تحقیق کی بنیاد پر تحریر کیا ہے کہ یہ گمراہ کن افکار ہیں کہ امام حسینؓ صحابی رسول نہیں۔ یہ تمام کوششیں اس لیے ہیں کہ ایک صحابی کی حیثیت سے امام حسینؓ کا جو احترام پایا جاتا ہے اسے ختم کردیا جائے اور پھر آسانی سے ان کے اقدا م پر تنقید کی جاسکے۔ پورے دلائل سے حسنین کریمینؓ دونوں کی صحابیت کو ثابت کیا ہے۔
حافظ ابن کثیر کے نزدیک صحابیت میں صغر سنی مانع نہیں اور سیدنا حسین بلاشبہ صحابی ہیں۔ حسین سادات مسلمین ہیں اور علما و صحابہ میں سے ہیں اور اللہ کے رسول کی سب سے افضل صاحبزادی کے بیٹے ہیں اور عابد، بہادر وسخی تھے۔
جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو آپؐ نے اپنی روئے مبارک میں اپنے اہل بیعت کو جمع فرمایا، جس میں سیدنا امام حسینؓ بھی شامل تھے اور دعا فرمائی کہ: اے اللہ یہ میرے اہل بیعت ہیں ان سے رجس دور فرما۔ اور یہ جو بعض لوگوں نے افواہ اڑا رکھی ہے کہ حسینؓ باغی ہیں تو اہل سنت و الجماعت کے نزدیک باطل ہے شاید یہ خوارج کی ہزلیات ہیں جو راہ مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں۔ سیدنا امام حسینؓ نے اس دور کے تمام لوگوں کے اس موقف کے مطابق کہ یزید فاسق تھا۔ تو یہی وقت تھا کہ امام حسینؓ اب یزید کے خلاف کھڑے ہوجاتے، یزید کے فسق کی وجہ سے کھڑا ہوجا نا متعین تھا اسی لیے سیدنا حسینؓ اپنی قلبی عزیمت کی بنا پر کھڑے ہوگئے۔ حق کے لیے کھڑا ہونا انہیں ہی سجتا تھا۔
مولانا احمد سعید کاظمیؒ نے سیدنا امام حسینؓ اور شہدائے کربلا کو خراج تحسین پیش کیا کہ ’’یہ بڑا المیہ ہے کہ سیدنا حسینؓ کے عظیم کارناموں اور ان کے فضائل و محاسن کے مقابلے میں یزیدیت کا پرچار کیا جارہا ہے۔ اہل سنت کے نزدیک یہ ایک روشِ باطل ہے۔ خاندان نبوت کا امت پر بڑا احسان ہے۔ شہدائے کربلا کی قربانیاں تا قیامت سلامت رہیں گی‘‘۔
مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ نے امام حسین کو تاجدار کربلا، سید الشہدا، مظہر شجاعت و سخاوت نبوت، پیکر عشق و محبت و صبر واستقامت، سید شباب اہل جنت کے القاب سے یاد کیا اور تحریر کیا کہ ’’الحمداللہ دلائل شرعیہ سے ثابت ہوگیا کہ سیدنا امامؓ کے نزدیک یزید بوجہ فاسق وفاجر ہونے کے ہرگز مسلمانوں کی امامت و سیاست کے قابل و لائق نہ تھا‘‘۔ یہ اللہ کا ہی ارادہ تھا کہ جس نے حسینؓ کو یزید پلید کی بیعت سے محفوظ رکھا۔ کیونکہ یزید اس دور کا سراپا رجس تھا۔ امام حسینؓ نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ حدیث مبارکہ کے مطابق افضل جہاد اس کا ہے جو ظالم بادشاہ کے پاس حق کی بات کہے۔ (ترمذی، بخاری، ابوداؤد) صاحبزادہ داکٹر ابو الخیر زبیر اپنے کتابچے میں البدایہ والنہایہ:82 /ص192 /تاریخ طبری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ وہ بدکردار حکمران یزید جس کی بے حیائی اور اسلام کے خلاف اس کے اقدامات یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ اس نے ماؤں اور بہنوں سے نکاح جائزکیا، نمازوں کو چھوڑا اور شراب کو اپنی زندگی کا جزو بنایا۔ جس نے بیس ہزار کا لشکر مکہ مکرمہ اور مدینہ پر حملے کے لیے بھیجا۔ جس نے حرمین شریفین کی حرمت کو پامال کیا۔ خانہ کعبہ پر پتھر برسائے۔ مسجد نبوی میں گھوڑے بندھوائے۔ 17سو اکابر انصار و مہاجرین صحابہ کو قتل کروایا۔ سات سو حفاظ کو شہید کروایا۔ تقریباً دس ہزار مردوں، عورتوں بچوں کو قتل کروایا۔ مدینہ کے گھروں اور وہاں کی پاک دامن بیبیوں کی عصمتوں کو لٹوایا‘‘۔ امام شیخ عبداللہ دانش اہل حدیث مکتبہ فکر کے عالم اور محقق ہیں۔ وہ لکھتے ہیںکہ حدیث مبارکہ میں سیدنا حسینؓ کی ولادت کا تذکرہ ہے۔ آپؐ نے امام حسینؓ کو گود میں لیا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے اور آپ ؐ نے یہ فرمایا: ’’میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میری ہی امت اسے قتل کردے گی؟ یعنی حسینؓ کو۔ میں نے کہا: اس معصوم بچے کو قتل کرے گی؟ فرمایا: ہاں۔ فرشتے نے تو اس کی قتل گاہ کی سرخ مٹی بھی مجھے لاکردی۔
امام حسینؓ کی شہادت اْمت کے لیے ایک نمونہ اور لائحہ عمل فراہم کرتی ہے۔ شہادت حسینؓ ہر دور کے یزیدیوں کی موت کا اعلان اور اسلام کی زندگی کا ثبوت ہے۔ بقول مولانا محمد علی جوہر ؎
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلاکے بعد