مزید خبریں

حکومت نے بجٹ فیصلوں پر صحیح طرح عملدرآمد کیا تو ملک دیوالیہ نہیں ہوگا

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد)حکومت نے بجٹ فیصلوں پر صحیح طرح عملدرآمدکیاتو ملک دیوالیہ نہیں ہوگا ‘ معاشی تنزلی کا رجحان تھم چکا، برآمدات بڑھانا اور درآمدات میں کمی کرنا ہو گی،حکومت نئی منڈیاں تلاش کر رہی ہے‘قوم آئی ایم ایف سے چھٹکارے کے لیے گھاس کھا نے کو تیار ہے ‘دوست ممالک کوسرمایہ کاری پر آمادہ کرنیکی ضرورت ہے‘حکمران اتحاد کے وعدے اور دعوے زبانی جمع خرچ ثابت ہوئے۔ان خیالات کا اظہار سفارتی امور کے تجزیہ کار اعجاز احمد ، پاک چین ٹریڈرز گروپ کے رہنما بلال احمد، فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے مرکزی رہنما اسرار الحق مشوانی،اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے صدر سجاد سرور، اسلام آباد بار کے سینئر ممبر عامر رضا ایڈووکیٹ اورسن گلو کے چیئرمین مدثر فیاض چودھری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے؟ ‘‘ اعجاز احمد نے کہا کہ دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے بھی اور نہیں بھی‘ حکومت متبادل منڈیاں تلاش کر رہی ہے‘ بارٹر ٹریڈ بھی اسی کا حصہ ہے ‘ حکومت اس کوشش میں ہے کہ چین‘ سعودی عرب جیسے دوست ممالک سے قرض کی ادائیگی کے لیے بندو بست کرے اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوگئی ہے‘ معیشت مستحکم بنانے کے لیے برآمدات بڑھانا ہوں گی اور درآمدات میں کمی لانے کی ضرورت ہے‘ حکومت اس جانب سنجیدگی سے کوشش کر رہی ہے‘ بیرون ملک سے آنے والا زرمبادلہ بھی ایک اہم عنصر ہے اسے ہنڈی کے بجائے بینک کے ذریعے آنا چاہیے تاکہ اس سے ملک کو فائدہ ہو‘ اصل بات یہ ہے کہ حکومت بجٹ میں جو بھی فیصلہ کرے‘ اس پر عمل درآمد میں کتنی کامیاب ہوتی ہے‘ فیصلوں پر عمل درآمد کرلیا تو خطرہ کم ہوجائے گا‘ ملک میں گاڑیاں تیار کرنے والی انڈسٹریز بند ہونے سے بے روزگاری بڑھنے کا خطرہ ہے۔ عوام کو آئی ایم ایف کی مجبوریوں سے کوئی سروکار نہیں‘ انہیں تو اتنا معلوم ہے کہ آپ نے آئی ایم ایف کے ساتھ عمران حکومت کی بدعہدی کے ممکنہ مضر اثرات کو بھانپ کر ہی اپنی عالی دماغ اقتصادی مالیاتی ٹیموں کے ذریعے ’’بیڑہ غرق‘‘ کی جانب لڑھکی ہوئی قومی معیشت کو سنبھال لینے کے دعوے کیے تھے۔ بلال احمد نے بتایا کہ ڈالر کی شرح نیچے آرہی ہے‘ ہانگ کانگ ڈالر بھی نیچے آرہا ہے اس کے بدلے روپیہ کچھ مستحکم ہوا ہے‘ قوم آئی ایم ایف سے چھٹکارے کے عوض گھاس کھا کر گزارا کرنے کو بھی تیار ہے مگر قومی غیرت و خودداری کے تحفظ کے جذبہ کی کوئی رمق نظر آئے تو سہی۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ قوم خوش ہوئی جب وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کی جانب سے آئی ایم ایف سے خلاصی پانے اور اپنا بجٹ آئی ایم ایف کے سہارے کے بغیر پیش کرنے کا عندیہ دیا گیا‘ آئی ایم ایف ہمارے دشمنوں کی شہ پر ہمیں قرض پروگرام دینے سے ہاتھ کھینچ رہا ہے تو یہی ہمارے کے لیے نادر موقع ہے‘ ہم آئی ایم ایف کو لات ماریں اور اپنے قومی وسائل اور برادر دوست ممالک کی اعانت کو اپنے بی پلان کے لیے بروئے کار لائیں ۔ سجاد سرور نے کہا کہ عوام کو حقیقی ریلیف نہیں دیںگے تو پھر آپ اگلے انتخابات میں عوام کے پاس کیسے جائیںگے اور انتخابات تو بہرحال ہونے ہیں‘ اس وقت ملک جن سنگین معاشی حالات سے دوچار رہا ہے‘ اس میں حکومت نے بہت سی توقعات آئی ایم ایف پروگرام سے وابستہ کی ہوئی ہیں‘ اس کے باوجود حکومت معاشی مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے‘ پاکستان کو اس وقت زرِ مبادلہ کی اشد ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ایک طرف ہمیں دوست ممالک کی جانب سے معاشی مدد چاہیے اور دوسری جانب غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ڈیفالٹ کی نوبت نہ آئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ترکیہ کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر حکومت کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے سرمایہ کاری کے وسیع مواقع پر گفتگو ہوئی‘ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا، آثار بتا رہے ہیں کہ معاشی تنزلی کا رجحان تھم چکا ہے‘ اب معاملات کو بہتری کی جانب لے جانا ہے‘ آئی ایم ایف نے کہہ دیا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہونے والا، تاجر برادری مشکل حالات میں حکومت کے ساتھ تعاون کرے ۔ عامر رضا ایڈووکیٹ نے کہا کہ تجارتی و صنعتی شعبے واقعی مشکلات کا شکار ہیں اور اگر حکومت کی جانب سے انہیں ریلیف فراہم نہیں کیا جاتا تو ان کے لیے معیشت کو سہارا دینا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اسحاق ڈار کی یہ باتیں تو بہت حوصلہ افزا ہیں کہ حالات کو مزید خراب ہونے سے روک لیا ہے اور اب حالات کو بہتری کی جانب لے جا رہے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ محض باتیں ہی ہیں یا ان سے کوئی حقیقی خیر بھی برآمد ہوتی ہے۔ گزشتہ تقریباً سوا سال کے دوران حکمران اتحاد کی طرف سے کیے گئے وعدے اور دعوے زبانی جمع خرچ ہی ثابت ہوئے ہیں جس کی وجہ سے عوام کا ان پر اعتماد بہت ہی کم رہ گیا ہے‘ معیشت کے بگاڑ کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ مدثر فیاض چودھری نے کہا کہ سیاسی اشرافیہ اپنے ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھ کر ملکی اور عوامی مفاد کے لیے متحد ہوتی ہے یا نہیں، اس بارے میں تاحال کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جس طرح کے بیانات سامنے آرہے ہیں ان سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت انا کی اسیر ہے۔