مزید خبریں

غم اور رضا الٰہی

غم اور دکھ کا سب سے اہم علاج ہے ایمان اوررضائے الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کردینا۔ ایک انسان کی خوش بختی اور بدنصیبی کا دارو مدار اس پر ہے کہ وہ اللہ کے فیصلوں کو برضا ورغبت تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ انسان کو خوشی اسی وقت نصیب ہوگی جب کہ وہ اللہ کے فیصلوں کو خوش دلی سے تسلیم کرلے۔ وہ اپنے بارے میں اتنا نہیں جانتا یقیناً اللہ اس کے متعلق اوراس کی ضروریات کے بارے میں جانتا ہے۔ آدمی کا علم ناقص اور محدود ہے اس لیے اسے خدا کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے۔ رب کائنات نے فرمایا:
’’ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے‘‘۔ (البقرہ: 216)
’’ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں نہ ناپسند ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلا رکھ دی ہو‘‘۔ (النساء: 19)
جب معاملہ یہ ہے تو پھر انسان کو ہر معاملے میں خدا کی مشیت کے آگے سر تسلیم خم کردینا چاہیے۔ بندے کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے تواس کے ناراض وخوش ہونے سے اس میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ بلکہ یہ چیز اس کو دکھ، رنج اورغم پہنچانے والی بنے گی۔
نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’یہ ابن آدم کی خوش نصیبی میں سے ہے کہ خدا کی جانب سے اس کے لیے جو بھی فیصلہ ہو وہ اس پرراضی رہے اور یہ کہ ابن آدم کی بدنصیبی میں سے ہے کہ وہ خدا سے خیر اور بھلائی طلب کرنا ترک کردے اور ابن آدم کی بدبختی ہے کہ خدا کا فیصلہ اس کے حق میں ہو اس پروہ ناخوش ہو‘‘۔
ایک مومن کا شیوہ تو یہ ہے کہ جب اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ ہائے ہائے نہیں کرتا، شکوے گلے نہیں کرتا، بلکہ منجانب اللہ اس کو سمجھتا ہے اور صبر کرتا ہے۔ صبر کے نتیجے میں اس کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ کسی نعمت وخوشی سے نوازا جاتا ہے تو آپے سے باہر نہیں ہوتا، ڈینگیں نہیں مارتا بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ اس طرح بھی اس کے درجات بلند ہوجاتے ہیں۔
نبیؐ نے فرمایا: ’’مومن کی نرالی شان ہے اس کے ہر کام میں بھلائی ہے اور یہ خصوصیت صرف مومن کو حاصل ہے۔ اگر اسے خوشی ہو تو شکر کرے، یہ اس کے لیے بہتر ہے اور جب اْسے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر اختیار کرے، یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے‘‘۔