مزید خبریں

سیدنا بلال بن رباحؓ

ابوعبداللہ سیدنا بلالؓ حبشی، افریقی نسل کے اولین مسلمانوں میں سے ہیں جو محسن انسانیتؐ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئے اور سابقون الاولون اصحاب نبی میں شمار ہوا۔ آپ کے والدکا نام ’’رباح‘‘ اور والدہ محترمہ ’’حمامہ‘‘ تھیں۔ ان کے والدین بنیادی طور پر افریقہ کے خطے حبشہ‘ جسے آج کل ’’ایتھوپیا‘‘ کہا جاتا ہے‘ کے رہنے والے تھے۔ بلالؓ کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہی ہوئی، امت مسلمہ میں ’’موذن نبوی‘‘ ان کی اول و آخر شناخت ہے۔ سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے خرید کر آزاد کیا اور پھر ساری عمر جوارِ نبوی میں بسر کی۔ سیدنا بلالؓ کو محسن انسانیت کا اس قدر قُرب میسر آیا کہ جملہ ضروریات نبوی سیدنا بلالؓ کی ہی ذمے داری تھی۔ آپ کا شمار اصحاب صفہ میں بھی ہوتا ہے۔ محسن انسانیتؐ نے سیدنا بلال کو اولین موذن اسلام بنایا، انہیں اذان سکھائی، الفاظ و حروف کی صحیح ادائگی کا طریقہ سمجھایا اور پھر انہیں ’’سید الموذنین‘‘ کا لقب بھی مرحمت فرمایا۔
قریش کا ایک نامور سردار امیہ بن خلف اسلام کا بدترین دشمن تھا، سیدنا بلال بن رباح ان کے غلام تھے۔ روایات کے مطابق آپؐ نے رات کے وقت اونچی آواز سے رونے کی آواز سنی، دیکھا تو ایک غلام چکی پیس رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ درد وکرب سے چِلا رہا تھا۔ آپؐ کے استفسار پر اس نے بتایا کہ وہ سخت بخار میں مبتلا ہے لیکن اگر وہ سوگیا اور یہ دانے پسنے سے رہ گئے تو اس کا آقا کوڑوں سے پٹائی کرے گا۔ ساتھ ہی اس نے شکوہ کیاکہ لوگ فقط پوچھ کر چلے جاتے ہیں اور بس۔ آپؐ گھر سے اس کے لیے گرم دودھ کا پیالہ لائے اسے پلایا اور سلادیا اور ساری رات محسن انسانیت اس کی جگہ چکی پیستے رہے۔ گیارہ راتوں تک آپؐ نے اس کی جگہ چکی پیسی، تب اس غلام نے پوچھاکہ اے بھلے مانس تُوکون ہے اور میری چکی کیوں پیستا ہے؟ آپؐ نے جب اسلام کی تعلیمات سے آگاہی فراہم کی اور وہ تفصیلی ملاقات سے بہرہ مند ہوئے تو دولت ایمان سے قلب مبارک منور ہوگیا۔ تاہم ایک مختصر مدت تک اپنے ایمان کو پردۂ اخفا میں رکھا، لیکن آخر کب تک؟ نور ایمان کی چندھیائی ہوئی روشنی نے ان کے آقا امیہ بن خلف کی آنکھوں کو اندھا کردیا اور مصائب و آلام اور ابتلاء و آزمائش کاایک پہاڑ ان پر ٹوٹ گرا۔ صحرائے عرب کی تپتی ریت روزانہ کی بنیاد پر ان کی میزبان تھی، عشق نبیؐ سے بھرپور سینے پر بھاری بھرکم پتھرکا وزن اس آزمائش کی بھٹی میں بلالؓ کو کندن بناتا تھا اور زنجیروں میں جکڑی ہوئی رات ’احد، احد‘‘ کے سبق کو پختہ تر کرتی چلی جاتی تھی۔ کوڑے مارنے والے تھک جاتے اور باریاں بدل لیتے تھے، کبھی امیہ بن خلف اور ابوجہل اور پھر کوئی اور لیکن سیدنا بلالؓ کی پشت سے دُروں کی آشنائی دم توڑنے والی نہ تھی، خون اور پسینہ باہم اختلاط سے جذب ریگزار ہوتے گئے یہاں تک کہ رحمۃ اللعالمینؐ تک کسی مہربان نے داستان عزم و ہمت وصبر واسقامت روایت کر ڈالی۔ محسن انسانیت نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو روانہ کیا، انہوں نے امیہ بن خلف کو شرم دلانے کی ناکام کوشش کی اور پھر ایک مشرک حبشی لیکن صحت مند غلام کے عوض سیدنا بلال کو خرید کر آزاد کردیا۔
مدنی زندگی کے آغاز میں ہی جب ایک موذن کی ضرورت پیش آئی تو محسن انسانیت کی نگاہ انتخاب سیاہ رنگت کی حامل اس ہستی پر پڑی‘ جس کے چہرے سے پھوٹنے والی حب نبوی کی کرنوں سے آفتاب بھی ماند پڑ جاتا تھا۔ سیدنا بلالؓ فجرکی اذان سے پہلے ہی مسجد نبوی کے پڑوسی مکان، جو بنی نجار کی ایک خاتون کی ملکیت تھا، اس کی چھت پر بیٹھ جاتے اور وقت کے آغاز پر اذان دیتے، جس کے بعد سب مسلمان مسجد میں جمع ہوجاتے۔ سیدنا بلالؓ کا سارا دن محسن انسانیت کے ساتھ ہی گزرتا تھا، خاص طور پر جب مسجد قبا جانا ہوتا تو وہاں بھی بلالؓ ہی اذان دیتے جس سے قبا کے مکینوں کو محسن انسانیت کی آمدکی اطلاع ہو جاتی تھی۔ قربت نبوی کے فیض نے بلالؓ کو خازن نبوی بھی بنا دیا تھا۔ جب کبھی کوئی سائل دست سوال درازکرتا تو اس کو موذن اسلام کی طرف بھیج دیا جاتا اور سیدنا بلال‘ محسن انسانیت کے ایما پر حسب ضرورت و حسب توفیق سائل کی معاونت فرمادیتے تھے۔ کچھ لوگوں نے سیدنا بلالؓ کے تلفظ پر اعتراض کیاکہ وہ ’’شین‘‘ کو ’’سین‘‘ کہہ کر ادا کرتے ہیں لیکن ان کا اعتراض بارگاہ رسالت ماب سے مسترد کر دیا گیا۔ ایک بار محسن انسانیت نے پوچھا: ’’بلال! ایسا کیا عمل کرتے ہوکہ میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے؟‘‘ بلالؓ نے جواب دیا کہ جب بھی وضو کرتا ہوں تو دو رکعت تحیۃ الوضو کے ضرور پڑھ لیتا ہوں۔ ہجرت کے بعد بلالؓ نے رفاقت نبوی کا حق ادا کیا اور ہر غزوے میں شامل رہے، خاص طور پر غزوۂ بدر میں اپنے سابق آقا امیہ بن خلف کو قتل کیا۔ دربار رسالت مابؐ میں اس سے بڑھ کر اور کیا پزیرائی ہو سکتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر کبار اصحاب رسول اور سرداران قریش کے درمیان میں سے آپ کو ہی حکم اذان ملا اور آپؓ نے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کراذان دی جو اس شہر اور اس گھر میں طلوع اسلام کے بعد پہلی اذان ہی نہیں بلکہ اعلان فتح تھا۔ پسے ہوئے طبقے کے ایک فرد کی محض تقویٰ کی بنیاد پر اس قدر عزت افزائی صرف دین اسلام کا ہی خاصہ ہے۔
وصال نبوی کا سانحہ کل اصحاب رسول کے لیے بالعموم جبکہ سیدنا بلالؓ کے لیے بالخصوص جاں بلب تھا۔ مدینہ شہر کا گوشہ گوشہ آپ کو محسن انسانیت کی یاد دلاتا تھا، چنانچہ آپ لشکر اسامہ بن زیدؓ کے ساتھ ملک شام کی طرف سدھارگئے۔
20 محرم، ہجرت کے بیسویں سال یہ ماہتاب عشق نبوی زوال پزیر ہوگیا، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ دمشق کے محلے باب الصغیر میں آپ نے وفات پائی، اس وقت عمر عزیز، بمطابق سنت، خاص تریسٹھ برس تھی۔ دو مزارات آپ سے منسوب ہیں، ایک تو دمشق میں ہے اور ایک اردن کے ’’بدر‘‘ نامی گاؤں میں ہے۔