مزید خبریں

روزِ محشر کے خوبصورت مناظر

موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ جس سے راہِ فرار ممکن نہیں۔ زندگی کی تمام رنگینیاں، عنائیاں، افراح وسرور، غم والم کے جذبات تصورِ موت سے ہی پھلتے پھوٹتے ہیں۔ موت کے بعد دوبارہ زندگی کا تصور ’’عقیدہ آخرت‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ ایمان کی اساس ہے۔ فلسفہِ موت و حیات کے مطابق یہ فانی وعارضی زندگی بس ایک امتحان گاہ سے زیادہ کچھ نہیں۔ جہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے مقرب بندے اپنے رب سے کیے ہوئے عہدِ اَلَستُ کی پاسداری اور اس کی تکمیل کے لیے روزِ وشب مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اْن کے اذہان وقلوب میں روزِ محشر کے مناظر واضح طور پر نقش ہوتے ہیں جو انہیں تھکاوٹ وبیزاری، مایوسی اور نااْمیدی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ قرآن حکیم میں روزِ محشر کے حالات وواقعات کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ قیامت کے دن کو مختلف ناموں سے موسوم کرکے اس دن کی عظمت و ہیبت، جاہ وجلال، شان ومنزلت اور اہمیت کو اْجاگر کیا گیا ہے۔
بلاشبہ محشر کا دن بذات خود انتہائی ہولناک، سخت اور خوفناک تعبیرات سے ماخوذ ہے۔ رب العالمین نے جہاں اپنی صفاتِ قہاری وجباری کے سبب روزِ محشر کی سختیوں کو بیان کیا ہے وہیں اپنی صفاتِ رحیمی وکریمی کی بھی خوبصورت انداز میں منظر کشی کی، تاکہ بندہ مومن نرمی وسختی، محبت واْلفت،خوف ورجا کے دونوں پہلوؤں کو اپنے سامنے رکھ کر ابدی زندگی کے لیے تیاری کرسکے۔
اللہ تعالیٰ کے دوستوں یعنی اہل ایمان کے لیے روزِمحشر انتہائی خوبصورت اور شاندار دن ہوگا ہے۔ پْرسکون، پْرنور، پْرامن، پْراْمید، سایہ دار، خوشیوں، خوشخبریوں، روشنیوں، عزت واکرام اور مہمان نوازی کا دن ہوگا۔ اہل ایمان کی خوشیوں اور مسرتوں کا آغاز تو اْسی دن سے ہوجائے گا جب وہ قبروں سے اْٹھائے جائیں گے۔ پریشانی، مایوسی، ڈر وخوف، حزن وغم، رنج والم اور اضطرابی کیفیت سے دوچار لوگوں کے درمیان اردگرد کے بدلتے ہوئے سخت حالات وواقعات کو پرْسکون اور اطمینانِ قلب کے ساتھ دیکھ رہے ہوں گے۔ ’’اور وہ اس دن کی گھبراہٹ سے بے خوف ہوں گے‘‘۔ (سورۂ نمل: 89) ان کے چہرے تابناک وشادمان ہوں گے۔ فرشتے ان کا استقبال کریں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ بڑی گھبراہٹ (بھی) انہیں غمگین نہ کر سکے گی اور فرشتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے، کہ یہی تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے‘‘۔ (سورۂ انبیاء: 103) ہر طرف سے ندائے عام ہوگی ’’اے میرے بندو! آج تو تم پر کوئی خوف (و ہراس) ہے اور نہ تم (بد دل اور) غمزدہ ہوگے۔ جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور تھے بھی وہ (فرماں بردار) مسلمان۔ (سورۂ زخرف: 68-69) پھر صدا لگائی جائے گی’’یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں۔ ان کے لیے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوش خبری ہے اللہ تعالیٰ کی باتوں میں کچھ فرق ہوا نہیں کرتا۔ یہ بڑی کامیابی ہے‘‘۔ (سورۂ یونس: 62-63)
کیا ہی خوشی کے لمحات ہوں گے! جب مومن بندہ کو اْس کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اْس کی خوشی دیدنی ہوگی اْس کے چہرے کی شادابی، چمک دمک چھپانے سے بھی چھپ نہ پائی گی۔ وہ خوشی سے جھومتا ہوا پکارے گا: لوگو! آؤ میرا نامہ اعمال پڑھو‘‘۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’سو جسے اس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہنے لگے گا کہ لو میرا نامۂ اعمال پڑھو۔ مجھے تو کامل یقین تھا کہ مجھے اپنا حساب ملنا ہے‘‘۔ (الحاقہ: 19-20)
مومن کا اعتماد ویقین اور سکونِ قلب اْس وقت قابل دید ہوگا جب سورج سوا نیزے پر موجود سروں کو اپنی تیز وتند تپش سے سلگا رہا ہوگا، تب مالکِ عرش اپنے محبوب وچنیدہ بندوں کو اپنے عرش کے سایے میں جگہ فراہم کرے گا۔ کتنے پرْمسرت لمحات ہوں گے‘ جب عوام کے جمِ غفیر میں خوشیوں سے سرشار یہ لوگ اپنے وضو کے چمکتے دمکتے اعضا سے پہچانے جارہے ہوں گے۔ تھوڑی دیر کے لیے تصور کیجیے اور محسوس کیجیے کہ کتنا دلنشین ودلفریب منظر ہوگا اور کیسی والہانہ محبت سے سرشار جذباتی ملاقات ہوگی، جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو اپنے دیدارِ کا شرف بخشے گا۔
اہل ایمان کو سب سے بڑی سعادت اور سب سے بڑی خوش نصیبی سرکار دو عالم رحمت للعالمینؐ کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر کا جام نصیب ہونا ہوگا۔ انبیاء علیہم السلام، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت نصیب ہوگی۔ اس خوبصورت، حسین اور پرنور موقع پر آپ کو یہ فرمان الہٰی یاد آئے گا جو آپ نے دنیا میں پڑھا تھا: ’’کیا وہ شخص جس سے ہم نے نکہ وعدہ کا، ہے جسے وہ قطعاً پانے والا ہے مثل اس شخص کے ہوسکتا ہے؟ جسے ہم نے زندگانیٔ دنیا کی کچھ یونہی سی منفعت دے دی پھر بالآخر وہ قیامت کے روز پکڑا باندھا حاضر کا جائے گا‘‘۔
اے اہل ایمان! یہ ساری خوشیاں، انعامات، عزت واکرام محشر کے دن اْن خوش قسمت لوگوں کو نصیب ہوں گی جو دنیا میں اللہ رب العزت کی الہٰیت وعبودیت اور حاکمیت کے سامنے سر تسلیمِ خم کرتے تھے۔ جن کا عقیدہ آخرت پر کامل ایمان تھا، جو روزِ محشر کی سختیوں اور ہولناکیوں کو ہر وقت یاد رکھتے تھے۔ جو رب کی رضا کی خاطر اپنے شب وروز اْس کی بندگی میں گزارتے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: ‘‘بیشک ہم اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کرتے ہیں جو اداسی اور سختی والا ہوگا‘‘۔ (سورۂ قصص: 10) پس جس نے دنیا میں صبر کیا اور اپنے نفس پر قابو پالیا، اللہ رب العزت اْس دن کے شرور سے اْسے بچالے گا جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’پس انہیں اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برائی سے بچالیا اور انہیں تازگی اور خوشی پہنچائی۔ اور انہیں ان کے صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے‘‘۔
یہ تو چند مناظر ہیں۔ اس موضوع پر تو ضخیم کتا ب مدون ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اور ہماری اولاد اور اہل ایمان کو ان خوش نصیب افراد میں شامل کر دے جو قیامت کے دن سْرخرو ہوں گے۔ اور جن کے لیے اْن کے رب نے ابدی خوشیوں اور دائمی راحتوں کا انتظام کیا ہوا ہے۔ آمین