مزید خبریں

…لغو سے پرہیز

قرآن نے مومن کی ایک نمایاں صفت یہ بتائی ہے کہ وہ لغویات سے پرہیز کرتے ہیں اور اس سے حتی الامکان دْور رہتے ہیں۔ سورۂ مومنون میں اللہ تعالیٰ نے فوز و فلاح پانے والے اپنے بندوں کی چند صفات کا ذکر کرتے ہوئے نماز کے بعد جس صفت کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ فلاح پانے والے مومنین لغو سے پرہیز کرتے ہیں:
’’یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘ لغویات سے دْور رہتے ہیں‘‘۔ (المومنون: 1-3)
گویا لغویات سے پرہیز اور اس سے بچنا مومن کی ایک نمایاں صفت ہے اور یہ فلاح پانے کی ایک سبیل ہے۔ اس کے لیے ہم لوگوں کو یہ ضرور جاننا چاہیے کہ ’لغو‘ کیا ہے؟
لغو کا مفھوم: مولانا مودودیؒ نے لغو کی وضاحت اِن الفاظ میں کی ہے: ’’لغو ہر اُس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول‘ لایعنی اور لاحاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو‘ جن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو‘ جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو‘ جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو‘ وہ سب لغویات ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج 3‘ ص 262) پوری آیت کا مطلب جاننے کے لیے ’لغو‘ کے ساتھ ساتھ معرضون کا مطلب بھی جاننا ضروری ہوجاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں: معرضون کا ترجمہ ہم نے ’دْور رہتے ہیں‘ کیا ہے۔ مگر اس سے پوری بات ادا نہیں ہوتی۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ وہ لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی طرف رخ نہیں کرتے۔ اْن میں کوئی دل چسپی نہیں لیتے۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں یا ایسے کام ہو رہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں‘ اْن میں حصہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں‘ اور اگر کہیں اْن سے سابقہ پیش آہی جائے تو ٹل جاتے ہیں‘ کترا کر نکل جاتے ہیں‘ یا بدرجہ آخر بے تعلق ہو رہتے ہیں‘‘۔ (ایضاً)
مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے ’لغو‘ کی وضاحت کچھ اس طرح کی ہے: ’’لغو سے مراد ہر وہ قول وفعل ہے جو زندگی کے اصل مقصود… رضاے الٰہی… سے غافل کرنے والا ہو۔ قطع نظر اس سے کہ وہ مباح ہے یا غیرمباح۔ جس نماز کے اندر خشوع ہو اْس کا اثر زندگی پر لازماً یہ پڑتا ہے فضول‘ غیرضروری‘ لایعنی‘ بے مقصد چیزوں سے احتراز کرنے لگتا ہے۔ اس کو ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ اگر میں نے کوئی فضول قسم کی حرکت کی تو اپنے عالم الغیب مالک کو ایک روز منہ دکھانا ہے اور اس چیز کی شب و روز میں کم از کم پانچ بار اس کو یاد دہانی ہوتی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کا ضمیر اتنا بیدار اور حسّاس ہو کہ غیرضروری حرکت سے اس کی طبیعت انقباض محسوس کرے وہ کسی بڑی بے حیائی کا مرتکب کبھی مشکل ہی سے ہوگا‘‘۔ (تدبرقرآن‘ ج 4‘ ص 434)
مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے اپنی انگریزی تفسیر میں ’لغو‘ کی تشریح اس طرح سے کی ہے: ’لغو‘ ایک ایسا فعل (قول و عمل) ہے جس کا نہ کوئی فائدہ اس دنیا میں ہے اور نہ اس کے بعد آنے والی زندگی میں‘ اس لیے یہ مسلم کے لیے بے سود ہے۔
مفسرین کی گراں قدر آرا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لغو ایک ایسا قول و فعل ہے جس کا کوئی فائدہ نہ اس دنیا میں اور نہ اس کا کوئی فائدہ آخرت میں ہے‘ بلکہ اس کا نقصان یہ ہے کہ زبان کا بے جا استعمال اور اس کو قابو میں نہ رکھنے کا وبال بھی ہوگا۔ لغو سے ایک دوسرا نقصان تضیع اوقات بھی ہے۔ تیسرا نقصان غیرسنجیدگی اور اصل مقصد سے بے توجہی پیدا ہوتی ہے۔ گویا لغو ایک بے فائدہ اور لاحاصل عمل ہی نہیں ہے بلکہ اس سے سراسر نقصان بھی ہے۔ مومن کوئی بھی ایسا عمل نہیں کرسکتا جو بے سود اور سراسر نقصان کا باعث ہو۔
مومن لغویات سے دْور رہتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں: اوّل یہ کہ اللہ نے منع کیا ہے‘ اور دوسری وجہ یہ کہ جو کام ہم یہاں کر رہے ہیں اور جو بات زبان سے نکال رہے ہیں وہ لکھنے والا لکھ رہا ہے اور اس سارے قول و عمل کا ہمیں اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو‘‘۔ (ق: 10)
نبی کریمؐ نے لغو باتوں کے حوالے سے بھی ہدایت فرمائی ہے:
سیدنا ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسولؐ نے فرمایا: جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے‘ اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘ اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ (متفق علیہ)
سیدنا ابوسریح عدویؓ نے بیان کیا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب رسولؐ گفتگو فرما رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے‘ اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یارسولؐ اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے؟ فرمایا: ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔ (متفق علیہ)
ان دونوں احادیث میں پڑوسی کی عزت اور اْسے تکلیف نہ پہنچانے‘ مہمانوں کی عزت اور ان کی خاطر و تواضع اور زبان کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ زبان کی حفاظت کے متعلق دو باتیں دونوں احادیث میں کہی گئی ہیں۔ اوّل یہ کہ زبان سے اچھی اور بہتر بات کہی جائے‘ اور دوم یہ کہ بہتر اور اچھی بات نہ کہنا ہو تو خاموش رہے۔ لغو بات زبان سے نکالنے کی کوئی گنجایش اس آدمی کے لیے قطعی نہیں ہے جو اللہ پر اور آخرت کے قائم ہونے اور اس کے حساب و کتاب پر یقین رکھتا ہو۔
مومن کا انعام: قرآن کے مطالعے سے پتاچلتا ہے کہ ایک مومن اور صالح بندہ اپنی زندگی میں پوری کوشش کرے کہ وہ لغویات سے دْور رہے لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی نہ کبھی لغو بات اس کے کانوں میں پڑجائے‘ جیسے فحش گانے‘ فلموں کے مکالمے‘ گالی گلوچ وغیرہ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے جنت کے جن انعامات کا ذکر کیا ہے اس میں کئی جگہ یہ بات بھی بتائی ہے کہ جنتی جنت میں لغو بات نہیں سنیں گے۔ گویا لغو سے پرہیز اور مکمل اجتناب زندگی بھر کرنے کی کوشش کرے اور اس کی خواہش دنیا میں نہ پوری ہو تو اللہ ایک جگہ ایسی عطا کرے گا جہاں وہ اللہ کا صالح بندہ لغو باتیں نہیں سنے گا اور لغو فعل سے اس کا کوئی واسطہ نہیں پڑے گا۔ وہ جگہ جنت ہوگی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے‘‘۔ (النبا: 35)
’’وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔ جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی‘‘۔ (الواقعہ: 35-36)
’’عالی مقام جنت میں ہوں گے‘ کوئی بے ہودہ بات وہ و ہاں نہ سنیں گے‘‘۔ (الغاشیہ: 10-11)
’’وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے۔ وہ جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے اور ان کا رزق پیہم صبح و شام ملتا رہے گا‘‘۔ (مریم: 62)
جنت کی ساری نعمتوں کو نہ ہم اس دنیا میں جان سکتے ہیں اور نہ اس کی کسی نعمت کا ادراک ہی کرسکتے ہیں۔ اس کی ساری نعمتوں سے لطف اندوز تووہ خوش نصیب لوگ ہوں گے جو جنت میں جائیں گے۔ سیدنا ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسولؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں‘ جنھیں نہ آنکھوں نے دیکھا‘ نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے۔ (متفق علیہ) جنت کی جن نعمتوں کا تذکرہ قرآن و حدیث میں بیان ہوا ہے اس میں ایک نعمت یہ بھی ہے کہ جنتی جنت میں لغو بات نہیں سنیں گے اور یہ اتنی بڑی نعمت ہے جس کا تذکرہ قرآن میں کئی جگہ ہے۔ لغو سے پرہیز اور اس سے مکمل اجتناب اللہ کی بڑی نعمت ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ لغو سے پرہیز کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اگر لغو پر گزر ہوجائے تو شریفانہ انداز سے گزر جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ لغویات میں ملوث کرنے کی کوشش کی جائے تو سلام کر کے وہاں سے الگ ہونے کی سعادت نصیب کرے‘ اور جنت عطا کرے جہاں لغو کا کوئی گزر نہیں ہے۔