مزید خبریں

…دعا میں غُلو

دعا میں غلو بھی ایک سنگین معاملہ ہے۔ آج کل اجتماعی طور پر جو دعائیں مانگی جاتی ہیں ان میں اکثر حد سے تجاوز ہوتا ہے ہمارے پیشہ ور واعظین اور بعض علما جو دعائیں اجتماعی طور پر مانگتے ہیں ان میں سخت غلو آمیزی ہوتی ہے۔ اور طبیعت کو اکتا دینے والی دعائیں ہوتی ہیں۔ بسا اوقات یہ لوگ دعا کرتے وقت بیچ بیچ میں وضاحت کے طور پر کچھ باتیں بھی کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے دعا میںکافی طوالت پیدا ہوجاتی ہے لوگ آمین کہنے کے منتظر ہوتے ہیں اور اکتاہٹ کی وجہ سے کچھ لوگ اپنی داڑھی میں انگلیاں ڈال کر خلال کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح یہ طویل دعائیں بے اثرہوجاتی ہیں۔جب دعا کرتے وقت قلب وذہن حاضر نہ ہوں تو دعا کی قبولیت کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ دعا وہی قبولیت کے درجے کو پہنچتی ہے جو خشوع وخضوع، چپکے چپکے اور آہ وزاری کے ساتھ مانگی جائے۔ پھر دیکھیں اس طرح کی دعاؤں کے ثمرات کیسے سامنے آتے ہیں۔ اور یہ بھی جانیں کہ کس طرح دعاؤں کی قبولیت کا یقین پیدا ہوجاتا ہے۔
واضح رہے بعض احادیث میں تکلف وتکرار اور غلو آمیزی وتجاوز پر مبنی دعاؤں کو علامات قیامت میں سے ایک علامت قرار دیا گیا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ عنقریب ایسے لوگ پیدا ہونگے جو دعاؤں میں غلو وتجاوز کریں گے۔ چنانچہ اس سلسلے میں یہ دو حدیثیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اور جو سند کے اعتبار سے صحیح ہیں۔
سعد کے ایک بیٹے سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا، میرے والد (سعد) نے مجھے کہتے سنا، ’’اے اللہ، میں تجھ سے جنت کا اور اس کی نعمتوں کا، اور لذتوں کا اور فلاں فلاں چیزوں کا سوال کرتا ہوں اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں جہنم سے، اور اس کی زنجیروں سے اور اس کے طوقوں سے اور فلاں فلاں چیزوں سے، تو انھوں نے مجھ سے کہا، اے میرے بیٹے، میں نے رسولؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ عنقریب کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دعاؤں میں حد سے تجاوز کریں گے۔ لہٰذا تم بچو کہ کہیں تم بھی ان میں سے نہ ہوجاؤ۔ جب تمہیں جنت ملے گی تو اس کی نعمتیں بھی مل جائیں گی اور جب تم جہنم سے بچا لیے جاؤ گے تو اس کی تمام بلاؤں سے بھی تم بچالیے جاؤ گے‘‘۔ (شرح سنن ابی داؤد)
ابو نعامہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن مغفل نے (ایک بار) اپنے بیٹے کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا: ’’اے اللہ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جب میں جنت میں داخل ہوجاؤں تو مجھے اس کے دائیں جانب سفید محل عطا فرما، اس پر عبد اللہ بن مغفل نے کہا: اے بیٹے! اللہ سے جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو۔ بے شک میں نے رسولؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب (میری) اس امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو طہارت اور دعا مانگنے میں حد سے زیادہ تجاوز کریں گے‘‘۔ (سنن ابی داؤد)
ان دونوں حدیثوں میں ’’یعتدون فی الدعاء‘‘ کے الفاظ ہیں البتہ آخر الذکر حدیث میں الدعاء کے ساتھ فی الطہور کا لفظ بھی آیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ امت مسلمہ میں عنقریب ایسے لوگ بھی پیدا ہونگے جو طہارت کی طرح دعا میں بھی حد سے زیادہ تجاوز کریں گے۔ اور ان کی دعائیں تکلف وتکرار الفاظ سے عبارت ہوںگی۔ ان احادیث کے یہ الفاظ قرآن کی اس آیت سے ماخوذ ومستفاد معلوم ہوتے ہیں۔
’’اپنے رب کو پکارو، گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (الاعراف: 55)
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ ’’المعتدین‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’حد سے تجاوز کرنا خواہ دعا میں ہو یا کسی دوسرے عمل میں، یہ سب اللہ کو پسند نہیں‘‘۔ (فی الدعاء ولافی غیرہ، تفسیر ابن کثیر)
مولانا مفتی محمد شفیعؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’معتدین، اعتداء سے مشتق ہے۔ اعتداء کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنا، معنی یہ ہیںکہ اللہ تعالیٰ حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔ حد سے آگے بڑھنا خواہ دعا ہی ہو یا کسی دوسرے عمل میں سب کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو دین اسلام نام ہی حدود وقیود کی پابندی اور فرماں برداری کا ہے، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور تمام معاملات میں حدود شرعیہ سے تجاوز کیا جائے تو وہ بجائے عبادت کے گناہ بن جاتے ہیں۔
دعا میں حد سے تجاوز کرنے کی کئی صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دعا میں لفظی تکلفات قافیہ وغیرہ کے اختیار کیے جائیں جس سے خشوع خضوع میں فرق پڑے، دوسرے یہ کہ دعا میں غیر ضروری قیدیں شرطیں لگائی جائیں، جیسے حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن مغفلؓ نے دیکھا کہ ان کے صاحبزادے اس طرح دْعا مانگ رہے ہیں کہ یااللہ میں آپ سے جنت میں سفید رنگ کا داہنی جانب والا محل طلب کرتا ہوں تو موصوف نے ان کو روکا اور فرمایا کہ دعا میں ایسی قیدیں شرطیں لگانا حد سے تجاوز ہے، جس کو قرآن وحدیث میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ (مظہری بروایت ابن ماجہ وغیرہ)
تیسری صورت حد سے تجاوز کی یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے بد دعا کرے یا کوئی ایسی چیز مانگے جو عام لوگوں کے لیے مضر ہو، اسی طرح ایک صورت حد سے تجاوز کی یہ بھی ہے جو اس جگہ مذکور ہے کہ دعا میں بلا ضرورت آواز بلند کی جائے‘‘۔ (معارف القرآن)
علامہ صابونی زیر نظر آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
’’اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو دعا میں فصاحت دکھاتے اور آواز کو بلند کرتے ہیں اور حدیث میں آیا ہے کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں (بلکہ حاضر وموجود خدا کو) پکارتے ہو‘‘۔ (صفوۃ التفاسیر)
دعا کا تعلق اصل میں قلبی کیفیات سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا اسلوب اور انداز بدلتا رہتا ہے۔ جیسی قلبی کیفیت ہوگی ویسا ہی رجوع الی اللہ ہوگا۔ کبھی گریہ وزاری کا عالم ہوگا اور اپنی دْعا کو آدمی الفاظ کا جامہ بھی پہنادے گا اور کبھی کوئی حرف زبان پر نہیں آئے گا۔ آدمی بغیر لفظ کہے سراپا دعا بن جائے گا۔ اس وقت دل مانگے گا، بے حرف وندا، مقصود اس سے یہ ہے کہ جہاں اور جس عالم میں ہو اپنے رب کو نہ بھولو، اسے یاد رکھو اور اس کے حضور میں اپنی عاجزی وفروتنی کا اقرار واظہار کرتے رہو۔