مزید خبریں

سوتیلے باپ کی ولدیت

سوال: ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ اس سے اس کو ایک لڑکی ہوئی۔ اس عورت نے بعد میں دوسرے شخص سے نکاح کرلیا۔ اس لڑکی کا اسکول میں نام لکھوانا ہے۔ کیا اس لڑکی کی ولدیت میں عورت اپنے موجودہ شوہر کا نام لکھوا سکتی ہے؟
جواب: اسلام نے نسب کی حفاظت پر بہت زور دیا ہے۔ اس کا حکم ہے کہ جس شخص کا بچہ ہو اسے اسی کی طرف منسوب کیا جائے، کسی دوسرے شخص کی طرف اس کی نسبت نہ کی جائے۔ عہدِ جاہلیت میں لوگ کسی بچے کو اپنا منہ بولابیٹا (متبنّٰی) بنالیتے تھے تو اس کی ولدیت بھی بدل دیتے تھے۔ وہ اسے حقیقی بیٹے کا درجہ دیتے تھے اور منہ بولے باپ کی طرف اس کی نسبت کرتے تھے۔ قرآن کریم میں اس کی ممانعت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور نہ اس نے تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارا حقیقی بیٹا بنایا ہے، یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی برحق ہے اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔ اور اگر تمھیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمھارے دینی بھائی اور رفیق ہیں‘‘۔
ان آیات کی تشریح میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لکھا ہے:
’’اس حکم کی تعمیل میں سب سے پہلے جو اصلاح نافذ کی گئی وہ یہ تھی کہ نبیؐ کے منہ بولے بیٹے سیدنا زیدؓ کو زید بن محمد کہنے کے بجائے ان کے حقیقی باپ کی نسبت سے زید بن حارثہ کہنا شروع کردیا گیا۔ بخاری، مسلم، ترمذی اور نسائی نے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ زیدبن حارثہؓ کو پہلے سب لوگ زید بن محمد کہتے تھے۔ یہ آیت نازل ہونے کے بعد انھیں زید بن حارثہ کہنے لگے۔ مزید برآں اس آیت کے نزول کے بعد یہ بات حرام قرار دے دی گئی کہ کوئی شخص اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنا نسب منسوب کرلے۔ بخاری ومسلم اور ابودائود نے سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کی روایت نقل کی ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا کہا، درآں حالے کہ وہ جانتا ہوکہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے، اس پر جنت حرام ہے۔ اس مضمون کی دوسری روایات بھی احادیث میں ملتی ہیں، جن میں اس فعل کو سخت گناہ قرار دیاگیا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ عورت کا اپنے پہلے شوہر سے ہونے والی لڑکی کی ولدیت میں دوسرے شوہر کا نام لکھوانا جائز نہیں ہے۔