مزید خبریں

!مسجدالحرام: 111 ارب ڈالر کی عمارت

مسجد حرام کی تاریخ میں سب سے بڑے توسیعی پروجیکٹ پر کام آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ حرم شریف کا پہلا توسیعی منصوبہ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے 17ھ میں شروع کیا تھا۔ اس کے بعد اب تک اس مقدس مسجد کی تقریباً 10 بار توسیع و مرمت کی جا چکی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی عبادت گاہ یا مذہبی مقام ہے۔
حالیہ توسیعی پروجیکٹ 5 حصوں پر مشتمل ہے۔
اس کی تکمیل کے بعد حرم شریف میں نصف کروڑ سے زائد افراد نماز ادا کر سکیں گے۔ شاہ فہد کے دور میں بھی اس وقت تک کا سب سے بڑا توسیع منصوبہ 10 برس میں مکمل ہوا۔ جس پر سعودی حکومت نے 30 ارب ریال (11 ارب ڈالر) خرچ کئے تھے۔ سعودی وزیر حج و عمرہ کے مشیر فاتن حسین کے جاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ منصوبے پر اب تک 100 ارب ڈالر کی لاگت آچکی ہے۔ جس میں اراضی کی خریداری، میٹریل کی لاگت اور مزدوری سمیت دیگر اخراجات شامل ہیں۔ حرم پاک کی توسیع کیلئے 80 ارب ریال کی صرف اراضی خریدی گئی۔ جبکہ مکہ مکرمہ کی اراضی دنیا میں سب سے زیادہ مہنگی ہے۔ یہاں ایک مربع میٹر زمین کی قیمت 5 سے 8 لاکھ ریال (تقریباً ساڑھے 3 کروڑ روپے) ہے۔ پھر حرم شریف کے قریب ہونے کے حساب سے زمین کی قیمت بھی بڑھتی ہے۔ سعودی حکمراں، حرمین شریفین کی تعمیر و توسیع اور جملہ اخراجات کیلئے ایک پائی بھی کسی سے قبول نہیں کرتے، یہ سارے اخراجات سعادت سمجھ کر اپنی جیب سے برداشت کرتے ہیں۔ سعودی ٹی وی ”الاخباریہ“ کے مطابق حرم شریف سے متصل اراضی کی قیمت دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ بیرونی صحنوں سے متصل اراضی پر جہاں معروف ہوٹلز قائم ہیں، یہاں ایک فلیٹ کی قیمت کروڑوں ریال ہے۔ مکہ مکرمہ کے مرکزی علاقے میں جو عمارت جتنی حرم شریف سے قریب ہوگی، اس کے فلیٹ اتنے ہی مہنگے ہیں۔ سب سے قریب ترین عمارت کا ایک فلیٹ 47 ملین ریال میں فروخت ہوا۔ سعودی حکومت نے حرم شریف میں توسیع کیلئے آس پاس کی زمینیں خرید لی ہیں۔ مختلف مقامات پر 400 ہوٹلوں سمیت 3500 رہائشی مکانات اور دکانوں کو منہدم کیا گیا ہے۔ اتنی بڑی اراضی سعودی حکومت نے 80 ارب ریال کی خریدی ہے۔ مکہ کے رئیل اسٹیٹ کمیٹی کے چیئرمین منصور ابو ریاش کے مطابق حکومت کی جانب سے حرم شریف کی توسیع کے منصوبے کے تحت خریدی جانے والی زمینیں ”شعب عامر“، ”جبل کعبہ“، ”جبل المدافع“ اور ”اجیاد“ میں شارع ابراہیمؑ کے آس پاس ہیں۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے ملنے والے معاوضے کو مناسب قرار دیا ہے، تاہم سعودی حکام نے کہا ہے کہ اگر مالکان سمجھتے ہیں کہ حکومت نے ان کے ساتھ ناانصافی کی ہے تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں، کیونکہ یہ منصوبہ حرم پاک جیسے مقدس مقام کی توسیع اور حجاج کرام کی سہولت کے لئے شروع کیا گیا ہے، اس میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہو سکتی۔ مسجد حرام کے اس توسیعی منصوبے کا کام 2012ء میں شاہ عبد اللہ کے دور میں شروع ہوا تھا۔ اس لئے یہ منصوبہ “توسعۃ الملک عبداللہ” کہلاتا ہے۔ حرمین شریفین کی اتنے بڑے پیمانے پر توسیع کی ضرورت اس لئے پیش آرہی ہے کہ ہر سال حجاج کرام اور عمرہ زائرین کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ حرم شریف کی توسیع کے سلسلے میں شمالی حصے میں تین چھوٹے پاور اسٹیشن بنائے جا رہے ہیں۔ یہ پاور پروجیکٹ التاثیر، جبل الکعبہ اور الحزون سڑک کے سامنے تعمیر ہو رہا ہے۔ توسیعی منصوبے کے بعد مسجد حرام اور اس کے احاطے میں نمازیوں کی گنجائش 40 سے بڑھ کر 52 لاکھ ہو جائے گی اور مسجد حرام کے شمال اور مغرب کی سمتوں سے کم سے کم 4 لاکھ مربع میٹر کی زمین مسجد کا حصہ بن جائے گی۔ توسیعی پروجیکٹ پر جدید ترین مشینری اور ہزاروں افراد کام کررہے ہیں۔ منصوبے میں خواتین انجینئرز کی خدمات بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔ 24 سعودی خواتین انجینئرز حرم کی توسیع میں شریک ہیں، جنہوں نے باہر ممالک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ اس وقت مسجد حرام کا کل رقبہ 40 لاکھ 8 ہزار 20 مربع میٹر ہے اور توسیع کے بعد مزید اس میں اضافہ ہو جائے گا۔ یہ زمین پر قائم ہونے والی پہلی مسجد ہے۔ اس کی پہلی چار دیواری حضرت عمر فاروقؓ نے639ء میں بنائی تھی، اس کے بعد سیدنا عثمان، خلیفہ مہدی، ولید بن عبد الملک، خلافت عثمانیہ اور سابق سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبد العزیز کے زمانے میں تاریخ کی سب سے بڑی توسیع 1993ء میں مکمل ہوئی۔ اس کے بعد حالیہ توسیعی منصوبہ اس سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت حرم کے قریب تمام چھوٹے اور پرانے ہوٹلوں کو گرا دیا جائے گا اور ان کی جگہ کثیر المنزلہ لگژری ہوٹل تعمیر کئے جائیں گے۔ وزارت سیاحت کے ایک اعلیٰ عہدیدار السواط نے روزنامہ الیوم کو بتایا کہ خدا کے مہمانوں کے قیام اور انہیں سہولتیں مہیا کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے ہوٹلوں کے ایک بہت بڑے منصوبے پر کام جاری ہے۔ چھوٹے ہوٹلوں کو مسمار کرکے بڑے اور جدید ہوٹل تعمیر کئے جائیں گے۔ مکہ مکرمہ میں وی آئی پی عازمین حج کے لئے فائیو اسٹار ہوٹل بنائے گئے ہیں، جن کا کرایہ یومیہ 3 ہزار ریال (ایک لاکھ چھیالیس ہزار روپے) سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ان ہوٹلوں میں سب سے مشہور مکہ کا المصا ہوٹل ہے۔ ان بڑے اور لگژری ہوٹلوں کو مسمار نہیں کیا جا رہا، کیونکہ یہ صحیح نقشے اور عالمی معیار کے مطابق تعمیر کئے گئے ہیں۔ توسیعی منصوبے کے ڈائریکٹر انجینئر عبد المحسن بن حمید نے میڈیا کو بتایا کہ منصوبہ کثیر تعداد میں زائرین کے مسائل کو پیش نظر رکھ کر شروع کیا گیا ہے۔ حج سیزن کے علاوہ رمضان المبارک میں بھی نہ صرف عمرہ کے لئے آئے لاکھوں مسلمان تراویح اور دیگر نمازوں کو حرم میں ادا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت حرم میں گزارتے ہیں۔ رمضان المبارک کی راتوں کو حرم میں کم سے کم 20 لاکھ افراد موجود رہتے ہیں۔ برطانوی جریدے انڈیپنڈنٹ نے بھی چند برس قبل دنیا کی 10 مہنگی ترین عمارتوں کی فہرست جاری کی تھی۔ جن میں مسجد حرام کو سرفہرست شمار کیا گیا۔ حرم شریف کے بعد دنیا کی دوسری مہنگی ترین عمارت بھی مکہ میں ہے۔ یہ مسجد حرام کے سامنے واقع ابراج البیت ہے۔ اس 92 منزلہ عمارت پر 15 ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ اس میں مختلف ہوٹلز، دُکانیں اور شاپنگ مال بنائے گئے ہیں۔ اس کی آمدنی مسجد حرام کیلئے وقف ہے۔ عمارت کے سامنے واضح الفاظ میں لکھا بھی گیا ہے۔ ۔ یہ عمارت بھی ایک عجوبہ ہے۔ اس کے اوپر دنیا کا سب سے بڑا گھڑیال نصب کیا گیا ہے۔ دنیا کی تیسری مہنگی ترین عمارت فرانس کا ٹوکامک ری ایکٹر ہے، جس پر 14 ارب ڈالرز خرچ ہوئے ہیں۔ چوتھی عمارت، سنگاپور کی مرینا بے سینڈز ہے۔ جس پر 8 ارب ڈالرز خرچ ہوئے۔ پانچویں ابوظہبی کی امارات پیلس (6 ارب ڈالرز)، چھٹی سنگاہور کی ریزورٹس ورلڈ سینٹوسا (5.4 ارب ڈالرز)، ساتویں آسٹریلین پارلیمنٹ کینبرا (4.2 ارب ڈالرز)، آٹھویں کوسموپولیٹن لاس ویگاس امریکہ (4.1 ارب ڈالرز)، نویں فریڈم ٹاور، نیو یارک امریکہ (4 ارب ڈالرز) اور دسویں مہنگی ترین عمارت وائن لاس ویگاس امریکہ (3۔3 ارب ڈالرز)