مزید خبریں

نعمت اور شکر نعمت

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’نہایت مہربان (خدا) نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے‘‘۔ (الرحمٰن: 1-2)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے جب اپنے تعارف کی تجدید چاہی تو بجاے اپنی کسی اور صفتِ حسنہ کے صفتِ رحمت کو تعارف کا حوالہ بنایا۔ میں نے تجدید ان معنوں میں کہا کہ پہلا تعارف تو عالمِ اَرواح میں ’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ‘ ط (الاعراف: 172) کہہ کر کرایا تھا جس کا جواب انسانوں نے ’بَلٰی‘ کہہ کر دیا تھا کہ ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ پھر سیدنا آدم ؑ سے لے کر سیدنا عیسٰی ؑ تک جتنے انبیا و رسل آئے سب نے اُس کا تعارف خالق و مالک اور دیگر صفات کے حوالے سے کرایا لیکن انبیا و رسل کے دنیا سے جانے کے بعد شیطان نے دیگر عقائد کی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارے میں بھی بگاڑ پیدا کردیا۔ بطورِ خاص یہودیوں نے باری تعالیٰ کو صرف جبار، قہار، منتقم اور حد یہ ہے کہ حاسد ہستی کے طور پر متعارف کرایا کہ اس نے بنی اسرائیل کی عظیم الشان ریاستوں کو بربناے حسد صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ درآں حالے کہ اُن ظالمانہ ریاستوں کو مٹاکر اپنے بندوں کو ان کے ظلم و جور سے نجات دلانا عنوانِ رحمت ہی تھا۔
اب ذرا اس پر غور فرمایئے کہ باری تعالیٰ نے اپنا تعارف قرآنِ کریم کی ابتدا ہی میں رحمن اور رحیم کے الفاظ سے کرایا تو اس کی حکمت کیا تھی؟
حکمت یہ تھی کہ ایک طرف تو یہودیوں کے اس تصور کی نفی کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ظالم ہے۔ دوسرے یہ کہ بندوں کو اپنی بے پناہ محبت کا شعور و ادراک عطا کیا جائے۔ رحمن و رحیم کی اصل دیکھیے تو دونوں الفاظ ’رحم‘ سے بنے ہیں جس کے معنی خواتین کے جسم کا وہ حصہ ہے جسے بطن کہا جاتا ہے اور جہاں بچے کا وجود تشکیل پاتا ہے۔ اس حوالے سے رحمت کے معنی اس محبت کے ہوتے ہیں جو ایک ماں کو اپنے پیٹ کی اولاد سے ہوتی ہے جسے مامتا کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ انسان کے علم اور تجربے میں ماں کے جذبۂ محبت سے بڑھ کر کسی اور محبت کا جذبہ نہیں تھا، اس لیے اللہ تبارک تعالیٰ نے اسی جذبے کو اپنی محبت کا حوالہ بنایا۔
رحمن و رحیم کے الفاظ کے معنی کی تفصیل میں جایئے تو معلوم ہوگا کہ دونوں الفاظ تفضیلِ کُل (superlative) سے بھی آگے کے صیغے، یعنی مبالغے کے صیغے میں ہیں۔ اس صیغے کے الفاظ کسی شے کی ناقابلِ تصور بہتات کے معنی دیتے ہیں جیسے اُردو میں استعمال ہونے والے الفاظ طوفان اور ہیجان ہیں۔ گویا ان الفاظ کے معنی ہوئے ہزاروں مائوں کی محبت سے بڑھ کر محبت کرنے والی ذات۔
مفسرین نے ایک ہی مادے سے بننے والے ان دو الفاظ کی ایک توجیہہ تو یہ کی ہے کہ گو دونوں صفاتی الفاظ مبالغے کے صیغے میں ہیں لیکن ان میں سے ایک، یعنی رحمن کا لفظ رحمت کی فراوانی کا ترجمان ہوتے ہوئے بھی کماحقہٗ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تصور پیش کرنے سے قاصر تھا۔ اس لیے اس تصور کو مزید واضح کرنے کے لیے اس کا مترادف لفظ رحیم لایا گیا۔ دوسری تشریح یہ ہے کہ صفتِ رحمانی رحمت کی عمومیت اور صفتِ رحیمی رحمت کی خصوصیت کو ظاہر کرتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ رحمن الدنیا ہے جو اپنی مخلوق کو بلاکسی تمیز کے اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے، اور رحیم الآخرت ہے کہ اپنے ارشاد: ’لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ،(ابراھیم: 7) کے مطابق آخرت میں اپنے شکرگزار بندوں کو اُن نعمتوں سے نوازے گا جن کا قرآن اور حدیث کے مطابق ذہنِ انسانی تصور تک نہیں کرسکتا۔
اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمن والی نعمتوں کا شمار کرنا چاہیں تو وہ شمار میں نہ آسکیں گی:
’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے‘‘۔ (ابراھیم: 34)
یہ سماعت، یہ بصارت، یہ ماں کی مامتا، اور باپ کی شفقت، یہ زمین پر ملنے والی لاتعداد سبزیاں اور طرح طرح کے خوش ذائقہ پھل، یہ ہوا اور پانی، یہ نعمتیں بے حساب بھی ہیں اور بے بدل بھی۔ کسی ایک نعمت کی افادیت کا شعور حاصل کرنا ہو تو اُسے روز مرہ کی زندگی سے خارج کرکے زندگی کا نقشہ بنایئے تو زندگی معدوم ہوتی نظر آئے گی۔ اب آیئے اس تناظر میں تلاوت شدہ آیت ِ مبارک، یعنی ’اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ‘ کا جائزہ لیں۔
اللہ تعالیٰ بجا طور پر اپنی کسی بھی نعمت کو اپنے رحمن ہونے کی دلیل بنا سکتا تھا لیکن اُس نے نزولِ قرآن کو ان معنی میں اپنی صفتِ رحمانی کی دلیل بنایا ہے کہ نعمتِ ہدایت کی یہ تکمیلی شکل وہ بنیادی نعمت ہے جو جملہ نعمتوں سے استفادے کا طریقہ سکھلاتی ہے اور جو نعمت قرآن کے بتلائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر استعمال کی جائے، وہ نعمت، نعمت نہیں رہتی بلکہ انسان کے اپنے اور دوسروں کے لیے زحمت اور سببِ ہلاکت بن جاتی ہے۔ قرآنی ہدایت کے مطابق اُسے استعمال میں لایا جائے تو نہ صرف یہ کہ اُس کے فوائد حاصل ہوتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق نعمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ ایسا کرنے والے بندے شکرگزار قرار پائیں گے اور اپنی شکرگزاری کے صلے میں اس دنیا کی نعمتوں میں اضافے کے ساتھ دوسری دنیا کی بے مثال اور لازوال نعمتوں کے بھی مستحق قرار پائیں گے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ شکرِ نعمت کے تقاضے کیا ہیں جن کی تکمیل پر انسان ازدادِ نعمت کا سزاوار ٹھہرتا ہے۔ شکرِنعمت کے تین اہم تقاضے یہ ہیں:
اوّل یہ کہ انسان کو نعمت کی افادیت اور اہمیت کا شعور و ادراک حاصل ہو کیونکہ ادراک کے بغیر وہ نہ اس نعمت کی قدر کرے گا اور نہ اُس سے فائدہ اٹھا سکے گا۔ مثال کے طور پر ایک پاگل شخص کی جیب میں اگر آپ ہزار روپے کا نوٹ بھی ڈال دیں تو اُس کی قدر کے عدم شعور کی بنا پر وہ اس کے لیے بے کار شے ہوگا اور ممکن ہے وہ اُسے پھاڑ کر پھینک دے اور اس طرح وہ نعمت ضائع ہوجائے۔
دوم یہ کہ نعمت کے مفید ہونے کے شعور کے مطابق اس نعمت کو عملاً استعمال بھی کیا جائے ورنہ محض شعور کسی کام نہیں آئے گا، مثلاً وہ نوٹ کسی کنجوس شخص کی جیب میں بھی عدم استعمال کے نتیجے میں بے کار ہی رہے گا اور یہ بھی کفرانِ نعمت کی ایک شکل ہوگی۔
سوم یہ کہ اُس نعمت کے فوائد میں دوسرے لوگوں کو بھی شریک کرلیا جائے۔