مزید خبریں

سیدنا سعید بن زیدؓ

سعید نام، ابو الاعور کنیت، والد کا نام زید اور والدہ کا نام فاطمہ بنت بعجہ تھا، سلسلہ نسب یہ ہے، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرظ بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی القرشی العدوی۔
سیدنا سعید بن زیدؓ کا سلسلہ نسب کعب بن لوی پر آپؐ سے اور نفیل پر سیدنا عمرؓ سے مل جاتا ہے۔ سعیدؓ کے والد زید اُن سعادت مند بزرگوں میں تھے جن کی آنکھوں نے اسلام سے پہلے ہی کفر وشرک کے ظلمت کدہ میں توحید کا جلوہ دیکھا تھا اور ہر قسم کے فسق وفجور یہاں تک کہ مشرکین کے ذبیحہ سے بھی محترز رہے تھے۔
زید کا دل کفر وشرک سے متنفر ہوا تو جستجو ئے حق میں دور دراز ممالک کی خاک چھانی اور شام پہنچ کر ایک یہودی عالم سے مقصود کی رہبری چاہی، اس نے کہا اگر خدا کے غضب میں حصہ لینا ہے تو ہمارا مذہب حاضر ہے، زید نے کہا: ’’میں اسی سے بھاگا ہوں، پھر اس میں گرفتار نہیں ہو سکتا، البتہ کوئی دوسرا مذہب بتا سکتے ہو تو بتاؤ، اس نے دین حنیف کا پتا دیا، انہوں نے پوچھا: ’’دین حنیف کیا ہے؟‘‘ بولا: ’’دین حنیف سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا مذہب ہے، جو نہ یہودی تھے نہ عیسائی، بلکہ صرف خدائے واحد کی پرستش کرتے تھے‘‘۔ یہاں سے بڑھے تو ایک عیسائی عالم سے چارہ خواہ ہوئے، اس نے کہا: ’’اگر خدا کی لعنت کا طوق چاہتے ہو تو ہمارا مذہب موجودہے‘‘۔ زید نے کہا: ’’خدارا کوئی ایسا مذہب بتاؤ جس میں نہ خدا کا غضب ہو نہ لعنت، میں ان دونوں سے بھاگتا ہوں‘‘۔ بولا میرے خیال میں ایسا مذہب صرف دینِ حنیف ہے، غرض جب ہر جگہ سے دین ابراہیم (علیہ السلام) کا پتا ملا تو شام سے واپس ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا: ’’خدایا! تجھے گواہ بناتا ہوں کہ اب میں دین حنیف کا پیرو ہوں‘‘۔ (بخاری، باب حدیث زید میں مفصل قصہ مذکور ہے)
زید کو اس کفرستان میں اپنے موحد ہونے کا نہایت فخر تھا، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بڑی صاحبزادی سیدہ اسماءؓ کا بیان ہے کہ میں نے ایک دفعہ زید کو دیکھا کہ کعبے سے پشت ٹیک کر کہہ رہے تھے: ’’اے گروہ قریش! خدا کی قسم! میرے سوا تم میں کوئی بھی دین ابراہیم (علیہ السلام) پر قائم نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً)
ایام جاہلیت میں اہل عرب عموماً اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، لیکن خدائے واحد کے اس تنہا پرستار کو ان معصوم ہستیوں کے بچانے میں خاص لطف حاصل ہوتا تھا اور جب کوئی ظالم باپ اپنی بے گناہ بچی کے حلق پر چھری پھیرنا چاہتا تو اس کی کفالت اپنے ذمے لے لیتے اور جب جوان ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے: ’’جی چاہے لے لو یا میری ہی کفالت میں رہنے دو‘‘۔ (ایضاً)
اسلام
جب رسولؐ نے دین حنیف کو زیادہ مکمل صورت میں دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کیا اور دعوتِ توحید شروع کی تو گو اس وقت اس کے سچے شیدائی زید صفحہ ہستی پر موجود نہ تھے، تاہم ان کے فرزند سعیدؓ کے لیے یہ آواز بالکل مانوس تھی، انہوں نے جوش کے ساتھ لبیک کہا اور اپنی نیک بخت بیوی کے ساتھ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔
سیدنا سعیدؓ کی بیوی سیدہ فاطمہؓ ‘ سیدنا عمرؓ کی حقیقی بہن تھیں، لیکن وہ خود اس وقت تک اسلام کی حقیقت سے نا آشنا تھے، بہن اور بہنوئی کی تبدیل مذہب کا حال سن کر نہایت برا فروختہ ہوئے اور دونوں میاں بیوی کو اس قدر مارا کہ لہولہان ہو گئے۔ (طبقات ابن سعد)
یہاں تک کہ ان بزرگوں کی اسی استقامت واستقلال نے خود سیدنا عمرؓ کو بھی اسلام کی حقانیت کا جلوہ دکھا دیا اور بالآخر عمر بن الخطاب سے فاروقِ اعظم بنا دیا۔
ہجرت اور غزوات
سیدنا سعیدؓ مہاجرین اوّلین کے ساتھ مدینہ پہنچے اورسیدنا رفاہ بن عبدالمنذر انصاریؓ کے مہمان ہوئے، کچھ دنوں کے بعد رسولؐ نے ان میں اور سیدنا رافع بن مالک انصاریؓ میں بھائی چارہ کرا دیا۔ (طبقات ابن سعد)
2ھ میں قریش مکہ کا وہ مشہور قافلہ جس کی وجہ سے جنگ بدر پیش آئی، ملک شام سے آرہا تھا، رسولؐ نے ان کو اور سیدنا طلحہؓ کو اس تجسس پر مامور فرمایا، یہ دونوں حدودِ شام میں تجبار پہنچ کر کشد جہنی کے مہمان ہوئے اور جب قافلہ وہاں سے آگے بڑھا تو نظر بچا کر تیزی کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے کہ رسالت مآبؐ کو پوری کیفیت سے مطلع کریں، لیکن قافلے نے کچھ سن گن پا کر ساحلی راستہ اختیار کیا او رکفار قریش کی ایک بڑی جمعیت کے، جو اس کی مدد کے لیے آئی تھی اور پرستارانِ حق کے درمیان، بدر کے میدان میں وہ مشہور معرکہ پیش آیا جس نے اسلام کو ہمیشہ کے لیے سر بلند کر دیا۔
غرض جس وقت سیدنا سعیدؓ مدینہ پہنچے اس وقت غازیانِ دین فاتحانہ سرور وانبساط کے ساتھ میدان جنگ سے واپس آرہے تھے، چوں کہ یہ بھی ایک خدمت پر مامور تھے، اس لیے رسولؐ نے ان کو بدر کے مالِ غنیمت میں حصہ مرحمت فرمایا اور جہاد کے ثواب سے بھی بہرہ ور ہونے کی بشارت دی۔ (طبقات ابن سعد)
سیدنا سعیدؓ جنگ بدر کے سوا تمام غزوات میں مردانگی وشجاعت کے ساتھ آپؐ کے ساتھ ہم رکاب رہے، لیکن افسوس ہے کہ کسی غزوے کے متعلق کوئی تفصیلی واقعہ نہیں ملتا۔
عہد فاروقی میں جب شام پر باقاعدہ فوج کشی ہوئی تو سیدنا سعیدؓ، سیدنا ابوعبیدہؓ کے ماتحت پیدل فوج کی افسری پر متعین ہوئے، دشمن کا محاصرہ اور یرموک کی فیصلہ کن جنگ میں نمایاں شجاعت وجاں بازی کے ساتھ شریک کار زار تھے، اثنائے جنگ میں ابو عبیدہؓ نے ان کو دمشق کی گورنری پر مامور کیا، لیکن شوق جہاد نے اس سے بیزار کر دیا۔ سیدنا ابوعبیدہؓ کو لکھاکہ میں ایسا ایثار نہیں کرسکتا کہ آپ لوگ جہاد کریں اور میں اس سے محروم رہوں، اس لیے خط پہنچنے کے ساتھ ہی کسی کو میری جگہ بھیج دیجیے۔ میں عنقریب آپ کے پاس پہنچتا ہوں۔ ابوعبیدہؓ نے مجبور ہو کر یزید بن ابی سفیانؓ کو دمشق پر متعین کیا اور سعیدؓ پھر میدان رزم میں پہنچ گئے۔

وفات
فتح شام کے بعد سیدنا سعیدؓ کی تمام زندگی نہایت سکون وخاموشی سے بسر ہوئی، یہاں تک کہ 50ھ یا51ھ میں ستر برس تک اس سرائے فانی میں رہ کر رحلت گزین عالم جاوداں ہوئے، چوں کہ ناوح مدینہ میں بمقام عقیق آپ کا مستقل مسکن تھا، اس لیے وہیں وفات پائی، جمعہ کا دن تھا۔ عبداللہ بن عمرؓ نماز جمعہ کی تیاری کر رہے تھے کہ وفات کی خبر سنی، اسی وقت عقیق کی طرف روانہ ہوگئے۔ سیدنا سعد بن وقاصؓ نے غسل دیا، عبداللہ بن عمرؓ نے نمازِ جنارہ پڑھائی اور مدینہ لا کر سپرد خاک کیا۔ (طبقات ابن سعد)