مزید خبریں

! آؤ اکٹھے جنت چلیں

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں ایک خاندان کا حصہ بنایا۔ ایک وقت آتا ہے جب بزرگ ساتھی دنیا سے چلے جاتے ہیں اور کچھ ننھے ننھے بچے اسی خاندان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ زندگی اسی طرح رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ انعام مانگے بغیر ہی عنایت کردیا کہ خاندان کے افراد میں آپس میں محبت پیدا کردی۔ ماں باپ کی محبت، بیوی کی محبت، خاوند کی محبت، بچوں کی محبت اور پھر اگلی پود، یعنی بچوں کے بچوں سے محبت۔ یہ محبت نہ صرف بڑوں کو بچوں سے ہوتی ہے بلکہ بچے بھی اپنے سے بڑوں کی محبت کا معصومانہ انداز میں اظہار کرتے ہیں۔ چند لوگ اس دنیا میں ایسے بھی ہوسکتے ہیں، اور ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اس سے محروم رکھا، یا وہ خود محروم رہ گئے۔ محبت کا یہی باہمی جذبہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کی بہتری کے لیے کوشش اور مدد کرنے پر اُبھارتا ہے۔ کوئی عزیز تکلیف میں ہو تو آنکھیں پُرنم ہوجاتی ہیں۔ کسی کو خوشی ملتی ہے تو خوشیاں بانٹنے کو دل چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا کا ہتھیار دیا ہے۔ ہم ہر وقت دعائوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشی، عافیت اور سلامتی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں، ایک دوسرے کی بہتری چاہتے ہیں، اور اپنی تمنائیں اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا انعام بھی ہم پر کیا ہے۔ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اچھائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں… کیوں؟ اس لیے کہ لوگ بُری عادات اور بُرے انجام سے بچ سکیں۔ یہ امربالمعروف نہی عن المنکر مسلم معاشرے کی خوبصورتی ہے۔ یہاں انسان نہ صرف ایک دوسرے کی بھلائی چاہتے ہیں، بلکہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ آج کل کے لوگ اس عمل کو شخصی آزادی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ ظالم کو ظلم سے نہ روک کر دراصل ظالم کی مدد کر رہا ہوتا ہے۔
بات محبت کے جذبے کی ہو رہی تھی۔ جب کوئی اپنا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو قدرتی طور پر دل بے تاب ہوجاتا ہے۔ پھر دعا کا سہارا لیا جاتا ہے… اے اللہ! اسے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما، اس کے مراحل آسان کردے، اس کے درجات بلند فرما دے… کون چاہتا ہے کہ اس کا عزیز، والدین، بچے، بیوی، خاوند اور دیگر عزیز و اقارب جنت میں نہ جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بشارت دی ہے کہ اہلِ خاندان کا جنت میں ساتھ ناممکن نہیں تو پھر کیوں نہ ہم کوشش کریں کہ اکٹھے جنت چلیں۔
محبت کے جذبے کا سرچشمہ اللہ کی ذات پاک ہے مگر اس محبت کا حصول مشروط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ اُن سے کہو کہ ’’اللہ اور رسولؐ کی اطاعت قبول کرو‘‘۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ دعوت قبول نہ کریں، تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں‘‘۔
(اٰل عمرٰن: 31-32)
یہ آفاقی اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بتا دیا ہے اور زندگی کا اصول بھی یہی ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔ یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ اگر ہم اللہ سے محبت کریں گے، تو وہ ہم سے محبت کرے گا… کوئی خاندان، کوئی رشتے داری، کوئی حسب و نسب ہمیں اللہ کی محبت کا دعوے دار نہیں بناسکتا۔ یہ محبت کیا ہے؟ اور پھر اللہ سے محبت!… اللہ سے محبت یہی ہے کہ ہماری مرضی اور پسند، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پسند کے تابع ہوجائے۔ اس کا کہا مانا جائے، اس پر عمل کیا جائے، اور اس کا حکم بلاچوں و چرا بجا لایاجائے۔ یہ نہیں کہ حی علی الصلٰوۃ، حی علی الفلاح کی صدا بلند ہو اور ہم ٹس سے مس نہ ہوں۔
یہ بڑی سادہ اور سیدھی بات اور واضح اصول ہے جو ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے، اور جو یہ اصول نہیں مانتے ان کے لیے کسی لگی لپٹی کے بغیر تنبیہہ ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے‘‘۔ (التوبہ: 23) گویا جن سے محبت کے دعوے ہوتے ہیں، جن کے لیے آدمی راتوں کو جاگتا اور تکلیف اٹھاتا ہے، اگر وہ بھی ایمان پر کفر کو ترجیح دیں تو ان کو ساتھی بنانے سے بھی منع کردیا گیا ہے۔ اس کے باوجود جو ایسا کرے اسے ظالم قرار دیا گیا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ظالم کے لیے قرآن مجید میں کیا کیا احکام ہیں اور ان کا کیا انجام بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ظلم کرنے سے باز رکھے، اور اللہ نہ کرے کہ کسی وجہ سے ہمارا شمار ظالموں میں ہو۔ اللہ تعالیٰ بڑی صاف بات فرما رہے ہیں کہ یہ دوغلی پالیسی نہیں چلے گی، اور پھر دعاے قنوت میں بھی ہم روزانہ وعدہ کرتے ہیں کہ: ’’ہم نافرمانی نہیں کرتے اور چھوڑ دیتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے‘‘۔
دنیا میں ہمارے ساتھی… والدین، زوجین، یعنی خاوند اور بیوی اور پھر اولاد… یہی لوگ مل کر عموماً خاندان بناتے ہیں، اور اکٹھے ماہ و سال بسر کرتے ہیں۔ مغرب کے خاندان کا تصور ہمارے پیشِ نظر نہیں جہاں والدین کو خاندان سے باہر بلکہ بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تو ہمارے خاندان کا حصہ ہیں، آپس میں محبت کی لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہیں جن کی ہمیں فکر رہتی ہے، ان کی بہتری کی خواہش بھی رہتی ہے، اور اگر انھیں تکلیف پہنچے تو طبیعت غمگین ہوجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بشارت دی ہے کہ یہی والدین، زوج اور اولاد جنت میں بھی ساتھی بن سکتے ہیں۔ یہ کیوں کر ممکن ہے اور اس کے لیے نسخۂ کیمیا کیا ہے؟ فرمایا:
’’اے ہمارے رب، اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے)، تُو بلاشبہہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے‘‘۔ (المومن: 8)
ان آیات کے ذریعے سے دراصل ہمیں اِس دعا کی تعلیم دی گئی ہے۔ یاد رکھیے، یہ دعائیں اللہ تعالیٰ نے یونہی تو نہیں بتائیں… یہ اس لیے بتائی ہیں کہ قبول بھی ہوتی ہیں۔ ہمیں قرآن پاک کے الفاظ پر جتنا یقین ہے، اسی طرح اس بات پر بھی یقین ہونا چاہیے کہ یہ دعائیں نری لفاظی نہیں ہیں بلکہ اللہ کا وعدہ ہیں۔ سوچیں تو سہی، وعدہ کون کر رہا ہے، پھر پورا کیوں نہ ہوگا! بہرحال شرائط تو ہمیں پوری کرنی ہیں۔ یہاں دیکھیے والدین، بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کی نوید ہے اور پھر شرط بھی ہے… کہ وہ جو صالح ہوں، وہی مستحق ہوں گے۔
قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کا وعدہ ہے مگر یہ وعدہ دوشرائط کے ساتھ مشروط ہے… صالح ہونا اور صابر ہونا۔ سورئہ رعد میں اہلِ ایمان کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:’’آخرت کا گھر اِنھی لوگوں کے لیے ہے، یعنی ایسے باغ جو اُن کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباواجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی امن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہر طرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے اور اُن سے کہیں گے کہ ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا، اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو‘‘۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر‘‘! (الرعد: 23-24)
یہ کتنی بڑی خبر اور خوش خبری ہے کہ ہمارے گھر والے بھی جنت میں اکٹھے ہوں گے! اللہ تعالیٰ ہمیں اور اہلِ خاندان کو اس مرتبے کے قابل بنادے… آمین!