مزید خبریں

خالد محمود، ڈی جی اسپورٹس خیبرپختونخوا کھلاڑیوں کی دارسی کریں

آپ خود کھیلوں سے وابستہ ہیں اور بطور کھلاڑی متعدد کھیل بھی کھیلتے ہیں جس میں بیڈمنٹن، اسکواش اور سوئمنگ سمیت رائفل شوٹنگ بھی شامل ہیں جبکہ آپ کے اپنے بیٹے بھی سوئمنگ سے وابستہ ہیں، اس لئے آپ کو انداز ہ ہے کہ کھیلوں کی اہمیت کتنی ہے اور کھیلوں سے وابستہ افراد بشمول کھلاڑیوں کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اللہ تعالی نے بطور ڈائریکٹر جنرل ا سپورٹس آپ کو موقع فراہم کیا کہ پشاور جسے صوبائی دارالحکومت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے میں آپ جو کبھی ڈپٹی کمشنر رہے میں کھیلوں کے فروغ کیلئے کام کریں، قبل ازیں بھی بطور ڈپٹی کمشنر آپ نے بہترین اقدامات اٹھائے تھے. اس لئے آپ سے یہی استدعا ہے کہ صوبے میں کھیلوں کے فروغ سمیت کھیلوں اور کھیلوں سے وابستہ افراد کے مسائل کے حل سمیت ان کے ساتھ انصاف اور میرٹ کے فیصلے کریں تاکہ لوگ آپ کو دعائیں دے سکیں۔
ڈائریکٹر جنرل ا سپورٹس کے عہدے پر آپ سے قبل بھی لوگ آئے ،ہر کوئی اپنا کرداراور وقت گزار کے چلا جاتا ہے، لیکن ان کا رویہ، کردار ہی انہیں ڈیپارٹمنٹ سمیت کھیلوں اور کھلاڑیوں میں یاد رکھنے پر مجبور کرتا ہے اس ڈیپارٹمنٹ کے متعدد سابق ڈائریکٹر جنرل آج بھی لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے کھیل، کھلاڑیوں سمیت ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کو سروس اسٹرکچر دینے پر بھی کام کیا،، اس عہدے پرآکر بہت کم لوگ طاقت کے نشے سے بچ جاتے ہیں، ہماری دعا ہے کہ آپ بھی ان میں شامل ہوں جنہیں عہدے کا نشہ نہ ہو ں، اور اپ صوبے میں کھیلوں کے فروغ کیلئے کام کرسکیں.آپ کا ماضی بھی اس بات کا گواہ ہے کہ بطور ڈپٹی کمشنر پشاور سمیت آپ کا رویہ سب کیساتھ یکساں رہا، امید ہے کہ بطور ڈائریکٹر جنرل بھی ماضی کا یہی رویہ آ پ کا سب کیساتھ رہے گا۔ اسپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام کرکٹ اکیڈمی کے ایک کھلاڑی کا شکوہ ہے کہ وہ سر عزیز اور سر عرفان جیسے لوگوں سے تربیت حاصل کی۔ کرکٹ اکیڈمی میں اس وقت 300 کے قریب کھلاڑی تربیت حاصل کررہے ہیں جن میں انڈر 13سے لیکر انڈر 19 کے کھلاڑی شامل ہیں، ایک تو اس اکیڈمی کیلئے جگہ بہت کم ہے دوسرے شہر سے آنیوالے کھلاڑیوں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اگر سابق اکیڈمی جو کہ ارباب نیاز کرکٹ اکیڈمی کیساتھ واقع تھی کو دوبارہ فعال کیا جائے تو اس سے نہ صرف پشاور صدر میں واقع سرکاری کرکٹ اکیڈمی پر کھلاڑیوں کا دباؤ کم ہو جائے گا بلکہ اس سے آمدنی کا ایک اور ذریعہ بھی صوبائی ا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو مل جائیگا۔