مزید خبریں

مطلقہ عورت کے تحفّظ کی صورتیں

سوال: ایک عورت نے نکاح کے بعد شوہر کے ساتھ پینتیس برس گزارے۔ اب بڑھاپے میں اس کے شوہر نے کسی بات پر ناراض ہوکر طلاق دے دی۔ وہ عورت اب کہاں جائے؟ اس کے ماں باپ کا انتقال ہوگیا ہے۔ بھائی بہن اپنے اپنے گھر کے ہیں۔ اس کی گزر اوقات کیسے ہو؟ اسلام اس کے لیے کیا تجویز کرتا ہے؟ اگر حکومت کی طرف سے ایسے شوہر کو پابند کیا جائے کہ زندگی بھر اپنی مطلقہ بیوی کو مناسب مقدار میں گزارہ بھتّہ دے تو اس میں حرج کیا ہے؟ برائے کرم ان سوالات کے معقول اور اطمینان بخش جوابات سے نوازیں۔
جواب: اسلام نے نکاح کو ایک پائیدار معاہدہ (میثاقاً غلیظاً) کی حیثیت دی ہے۔ وہ ازدواجی تعلقات میں خوش گواری چاہتا ہے۔ شوہر کو بھی وہ تاکید کرتا ہے کہ بیوی کے ساتھ معروف طریقے سے زندگی گزارے اور اگر اس کی جانب سے کسی کوتاہی یا غلطی کا ارتکاب ہو تو درگزر کرے اور بیوی کو بھی ہدایت دیتا ہے کہ وہ بغیر کسی معقول سبب کے رشتہ ختم کرنے کو نہ سوچے۔ لیکن کبھی ایسے حالات بن جاتے ہیں کہ نکاح ختم ہوجانے ہی میں عافیت معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام نے طلاق یا خلع کا دروازہ بند نہیں کیا ہے، بلکہ اس کی گنجائش رکھی ہے، اگرچہ اسے ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔
طلاق کا کوئی واقعہ پیش آئے تو اسے عام طور پر اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ اس میں سراسر شوہر کی زیادتی اور ظلم ہے، حالاں کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیوی کی مسلسل بد خْلقی اور سرکشی سے مجبور ہوکر شوہر نے یہ اقدام کیا ہو۔ بچے ہوجائیں تو ان کی محبت میں شوہر یوں بھی طلاق پر جلد آمادہ نہیں ہوتا۔ اگرچہ اس معاملے میں شوہر کے ظلم کو بھی بالکلیہ خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔
طلاق کی صورت میں یہ بھی ایک مفروضہ ہی ہے کہ عورت بالکل بے سہارا اور محتاج ہو۔ اس کا بھی امکان ہے کہ وہ ملازمت کرتی رہی ہو، یا اس کا کوئی بزنس ہو، یا وہ گھر بار اور پراپرشٹی کی مالک ہو۔ اس بنا پر طلاق کی صورت میں اس کی معاشی زندگی کچھ بھی متاثر نہ ہو۔ بالفرض اگر طلاق کے نتیجے میں عورت بے سہارا ہوگئی ہو تو اسلام کا نظامِ نفقات اس کو سہارا دینے کے لیے کافی ہے۔ اگر عورت کا باپ زندہ ہے تو اسلام اس کی ذمے داری قرار دیتا ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیٹی کی کفالت کرے۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ نے صحابہ کرامؓ سے دریافت کیا: کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ افضل صدقہ کیا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا: ہاں، اے اللہ کے رسول! ضرور بتائیے۔ آپؐ نے فرمایا:
’’تمھاری بیٹی تمھارے پاس واپس آجائے۔ اس کے لیے تمھارے علاوہ اور کوئی کمانے والا نہ ہو‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)
عورت بڑی عمر کی ہو تو اس کا قوی امکان ہے کہ اس کے بچے روزگار سے لگ گئے ہوں۔ وہ اسے اپنے پاس رکھیں اور اس کی کفالت کریں۔ اس کا بھی امکان ہے کہ عورت کے بھائی ہوں۔ باپ یا بیٹے نہ ہونے کی صورت میں اس کی کفالت کرنا ان کی ذمے داری ہے۔ اسی طرح درجہ بہ درجہ دیگر خونی رشتے داروں کی ذمے داری ہوگی۔ اور اگر عورت کا کوئی رشتے دار زندہ نہ ہو تو ریاست کی ذمے داری ہوگی کہ ایسی بے سہارا عورت کی سرپرستی کرے اور اس کی تمام ضروریات پوری کرے۔
طلاق کی صورت میں مرد اور عورت کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔ اگر طلاق مغلّظ ہوگئی ہے تو اس رشتہ کا بالکلیہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجاتا ہے، الّا یہ کہ عورت کا کسی اور مرد سے نکاح ہوجائے، پھر وہ بھی طلاق دے دے، یا اس کا انتقال ہوجائے۔ طلاق مغلّظہ کی صورت میں عورت کا دوسرے مرد سے تو نکاح ہو سکتا ہے، لیکن سابق شوہر سے نہیں ہو سکتا۔ ایسی شدید حرمت کی صورت میں شوہر کو پابند کیا جائے کہ وہ مطلّقہ بیوی کو تاحیات، یا جب تک اس کا دوسری جگہ نکاح ہوجائے، گزارہ دیتا رہے، درست نہیں معلوم ہوتا۔
طلاق کی صورت میں مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ عورتوں کو اچھے طریقے سے رخصت کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’لہٰذا انھیں کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کرو‘‘۔ (الاحزاب: 49)
قرآن میں دوسری جگہ ہے:
’’اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر‘‘۔ (البقرۃ: 241)
ان آیات سے یہ تو مستنبط ہوتا ہے کہ طلاق کی صورت میں شوہر کی طرف سے عورت کو کچھ ضرور دیا جائے۔ اس کی مقدار کم بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ بھی۔ لیکن یہ یک مشت دیا جائے گا۔ عورت کو تا حیات یا تا نکاحِ ثانی ہر ماہ کچھ نہ کچھ دینے کے لیے شوہر کو پابند نہیں کیا جا سکتا۔ طلاق کی روح یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں مرد اور عورت کا رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے، جب کہ شوہر کو گزارہ بھتّہ ادا کرنے کا پابند کرنے سے ان کے درمیان کچھ نہ کچھ تعلق باقی رہے گا۔ پھر یہ عورت کی غیرت کے خلاف ہے کہ جس مرد سے اس کا اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا ہے، اس کی وہ دست نگر بنی رہے۔
جو لوگ شوہر کے ذریعے طلاق کے بعد بھی سابقہ بیوی کو گزارہ بھتّہ دیے جانے کی وکالت کرتے ہیں ان کی نظر سے اس معاملے کا ایک پہلو اوجھل ہوجاتا ہے۔ وہ یہ کہ اگر شوہر کو معلوم ہوجائے کہ طلاق کے بعد بھی بیوی سے پیچھا نہیں چھوٹے گا اور زندگی بھر اسے گزارہ بھتہ دینے کا وہ پابند ہوگا تو طلاق ہی کیوں دے گا۔ وہ اسے اپنے نکاح میں باقی رکھتے ہوئے پریشان کرے گا اور ستائے گا۔ اس طرح بیوی کی زندگی اجیرن بنی رہے گی۔ اس سے تو اچھا ہے کہ وہ طلاق کے ذریعے شوہر کے ظلم و ستم سے آزاد ہوجائے۔
اسلام کے تمام احکام معقولیت رکھتے ہیں۔ اس لیے اس مسئلے پر جذباتی انداز میں غور کرنے کے بجائے اس کے تمام پہلوؤں کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور طلاق کے بعد شوہر کو سابقہ بیوی کی کفالت کا پابند کرنے کے بجائے ان لوگوں کو اس کی ذمے داری اٹھانی چاہیے جن کو اسلام کے نظامِ نفقات کے تحت ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔