مزید خبریں

…نیکی کی روح

ہماری زندگی میں ایسے بہت سے کاموں کی مثالیں ہیں کہ جنھیں کرنے یا انجام دینے والے کو گمان ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کے لیے کررہا ہے، لیکن درحقیقت اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے۔
انفاق ضائع ہوجاتا ہے(ابطال)، اگر اس کے بعد احسان جتایا جائے یا تکلیف دی جائے یا دکھاوے کے لیے کیا جائے۔ اور اس کے لیے چٹان پر سے مٹی ہٹنے کی مثال دی گئی ہے۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا۔ (البقرہ: 264)
اعمال دنیا ہی کی نیت سے کیے جائیں تو بڑھاپے میں باغ یا آمدنی کا واحد ذریعہ ختم ہوجانے کی مثال دی گئی ہے۔ (البقرہ: 266 )
’’مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں درآںحالیکہ اپنے اْوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے اور جہنم میں انھیں ہمیشہ رہنا ہے‘‘۔ (التوبہ: 17)
اس آیت میں اصل میں تو کافر و مشرک کا ذکر ہے لیکن مسلم کو بھی ہوشیار رہنا چاہیے کہ ’مسجد حرام کی دیکھ بھال‘ جیسی نیکی بھی ضائع ہو سکتی ہے، اور اس کے بعد والی آیت کے مطابق ’حاجیوں کو پانی پلانا‘ بھی۔
حدیثِ نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید، عالم اور سخی کو جہنم میں ڈال گیا کیوںکہ یہ دکھاوے کے لیے عمل کرتے تھے۔ اس طرح جان کی قربانی، حصولِ علم، صدقہ کیا ہوا مال ضائع ہوسکتے ہیں۔ (نسائی، عن ابی ہریرہؓ)
نماز کو ورزش، روزے کو خوراک کنٹرول کرنے کا منصوبہ، اور حج کو سیاحت کی نیت سے کرنے سے یہ عبادتیں بے معنی ہوسکتی ہیں۔
اچھے کام میں نیت بھی اچھی رکھنا ضروری ہے، یعنی صرف اللہ کی خوش نودی اور آخرت کا اجر۔
نیکیاں جن کے آداب کو ملحوظ نہ رکھا جائے۔ ایسی نیکیاں جن کو صحیح طریقے سے ادا نہ کیا گیا ہو، قبول نہ ہوں گی، خواہ ظاہری طریقے میں نقص ہو یا دل کی کیفیت میں کمی ہو۔ ظاہری طریقے میں نقص کی ایک مثال یہ ہے کہ بنیادی شرائط پوری نہ کی گئی ہوں، مثلاً طہارت کے بغیر نماز ادا کی جائے، یا روزہ، حج اور دیگر عبادات جن کے ارکان و شرائط علما نے الگ سے جمع بھی کردیے ہیں، وہ ان کا خیال رکھے بغیر کیے جائیں۔ یہ علم کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں، جو ایک مومن کے لیے صحیح نہیں۔ علم کی کمی میں معذور ہونے کو شاید اللہ تعالیٰ معاف کردے، لیکن بلاعذر علم ہی نہ ہونا، مومن کی شان سے مناسبت نہیں رکھتا۔
دل کی کیفیت میں کمی کی صورت یہ ہے کہ نیکیوں کو بے دلی یا سْستی سے کیا جائے، یا زبردستی سمجھ کر کیا جائے، یا نیکیوں کے دوران کوئی کیفیت موجود ہی نہ ہو۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورئہ ماعون میں بے نمازیوں کے لیے نہیں، بلکہ بعض نمازیوں کے لیے بھی تباہی کی وعید ہے۔ سورئہ نساء (آیت 142) نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اور دکھانے کے لیے اٹھنے کا تذکرہ ہے۔ اس نماز کی جزا نہیں جس میں آدمی رکوع و سجود میں پیٹھ سیدھی نہ کرے۔ (ابن ماجہ، ابومسعود)
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہے، مگر اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔ پوچھا گیا وہ کیسے؟ انھوں نے کہا: کیوںکہ نہ وہ رکوع پورا کرتا ہے اور نہ سجود، نہ قیام پورا کرتا ہے اور نہ اس کی نماز میں خشوع ہوتا ہے۔
سیدنا عمرؓ نے فرمایا: ’’ایک شخص اسلام میں بوڑھا ہوگیا اور ایک رکعت بھی اس نے اللہ کے لیے مکمل نہیں پڑھی‘‘۔ پوچھا گیا: کیسے یا امیرالمومنین؟‘‘ فرمایا: ’’اس نے اپنا رکوع پورا کیا اور نہ سجود‘‘۔
امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: ’’انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہوں گے، لیکن وہ نماز نہیں ہوگی‘‘۔
جنید بغدادیؒ کا ایک واقعہ کتب میں لکھا ہے، جس میں وہ ایک واپس آنے والے حاجی سے مناسکِ حج کے ساتھ کچھ کیفیات کے متعلق پوچھتے ہیں۔ جب وہ نفی میں جواب دیتا ہے، تو وہ اسے حج دوبارہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
کپڑے پہن کر عریاں رہنے والیوں کے لیے وعید ہے۔ اسی طرح خواتین کے ایسے عباے جو ظاہری چمک و رنگ اور چستی سے مزید کشش کا باعث ہوں، بے مقصد اور لایعنی پہناوا ہیں۔ مہمان نوازی کرکے، مہمان کے جانے کے بعد اس پر تنقید و مذاق، مہمان کی تکریم کی نفی ہے۔
نیکی کرنے کا طریقہ بھی صحیح رکھنا چاہیے اور اس کے لیے علم حاصل کرنا چاہیے۔
نیکی کے دوران اس کے آداب اور دل کی کیفیات کا خیال رکھنا چاہیے۔ پوری رضامندی اور خوشی کے ساتھ نیکی کرنا چاہیے۔
نیکی کرتے ہوئے ڈرتے رہنا چاہیے، کیوںکہ مومنوں کو عمل قبول نہ ہونے کا ڈر رہتا ہے اور خشیت مومنوں کی کیفیت ہے۔ سورئہ انبیاء (آیت 90) میں نیکیوں کی دوڑ دھوپ کے ساتھ خوف کا بھی ذکر ہے۔ رسول کریمؐ کو بھی اپنے عمل سے نہیں، اللہ کے فضل اور رحمت سے ہی جنت میں جانے کی اْمید تھی۔ (بخاری، ابو ہریرہ)
نیکی کے بعد اس کی قبولیت کی دعا کرنی چاہیے، خواہ وہ نماز ہو، کوئی انفاق ہو، دین کے لیے نکلنا اور چلنا ہو، یا کسی بندے سے معاملہ ہو۔
نبی اکرمؐ جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں پاکیزہ روزی، نفع بخش علم اور قبول ہونے والے عمل کا‘‘۔ (ابن ماجہ، اْمِ سلمہؓ) سیدنا ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت دْعا کی تھی: رَبَّنَا تَقَبَّل مِنَّا ط (البقرہ: 127) ’’اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے‘‘۔
علما نے کچھ دعاؤں میں سعی مشکور مانگی ہے، یعنی ایسی کوشش جس کی قدردانی کی گئی ہو۔