مزید خبریں

کرکٹر کے اثاثے، پی سی بی اور پرائیویٹ کرکٹ اکیڈمیاں

کم و بیش دو ہفتے قبل لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک کرکٹر کے گھر میں ڈکیتی کی واردات ہوئی جس کی ایف آئی آر بھی سامنے آئی جس میں یہ موقف سامنے آیا کہ کرکٹر کے گھر سے نامعلوم افراد غیر ملکی کرنسی جس میں ڈالر، پونڈ، یورو اور دینا ر تک شامل ہیں وہ اٹھا کر لے گئے ہیں جتنی مالیت ان سب کی ظاہر کی گئی وہ پاکستانی روپوں میں کم و بیش ایک کروڑ روپے سے زائد تھی ان میں چون لاکھ روپے صرف ڈالر کے بنتے ہیں بقایا رقم اس کے علاوہ ہیں. بیشتر لوگوں نے خبر پڑھ لی اور اس پر خاموشی چھا گئی، کھیلوں سے وابستہ حلقوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا اور کہ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔
تحقیقاتی اداروں سمیت کسی نے یہ پوچھنے کی ہمت تک نہیں کی کہ ایک کرکٹر کے گھر سے اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی کرنسی کس طرح برآمد اور یہ کہاں سے آئی تھی اس بارے میں کھیلوں سے وابستہ صحافیوں سمیت کسی بھی کرائم رپورٹر نے خبر دینے کی زحمت نہیں کی کہ ایک کرکٹر کے گھر میں اتنی زیادہ کرنسی کرکیا رہی تھی اور کیا اس نے اس رقم پر ٹیکس بھی حکومت کو ادا کی تھی یا نہیں اور اس کے علاوہ اس کرکٹر کے پاس کتنی رقم ہے یہ ایک الگ اسٹوری ہے.جس پر ابھی تک کسی بھی تحقیقاتی ادارے نے کوئی کام نہیں کیا اور نہ ہی صحافیوں نے کوئی کام کیا.حالانکہ اگر اتنی کسی رجسٹرڈ کرنسی ڈیلر کے گھر سے نکل آتی تو پھر اس کا حال کیا ہوتا اس بارے میں زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں چونکہ معاملہ کرکٹ کا ہے اور کرکٹ ہمارے ملک میں لاڈلے بیٹے کی طرح ہے اس لیے لاڈلو ں سے کوئی نہیں پوچھتا.نہ ہی کوئی ہمت کرسکتا ہے۔
بلاگ کا آغاز اس لئے کرکٹر کی اسٹوری سے کیا کہ یہ صرف ایک کرکٹر کی کہانی ہے پتہ نہیں کتنے ہمارے ہاں کتنے اے اور بی کیٹگری کے کرکٹر ہیں جو لاڈلے ہیں اور ان لاڈلوں کو لانے اور پالنے والا بھی پاکستان کرکٹ بورڈ ہے جو پشتو زبان کے بقول الگ ہی صوبہ ہے جس کا اپنا ہی الگ بجٹ ہے، جن سے پوچھنے والا بھی کوئی نہیں کہ کون کیا کررہا ہے اور کس کی ڈیوٹی کیا ہے، میڈیا سے لیکر مینجمنٹ تک سب اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے لاڈلوں میں شمار ہوتے ہیں اور ایسے لاڈلے جن پر عوامی ٹیکسوں کا پیسہ اڑایا جاتا ہے لیکن ان کا آڈٹ صرف انہی کے لوگ کرتے ہیں. باقی خیر خیریت ہے. خیر یہ تو ضمنی باتیں ہیں. بلاگ کے آغاز میں کی جانیوالی چوری کی اس خبر سے راقم کو اندازہ ہوا کہ صوبائی اسپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کرکٹ اکیڈمی میں روزانہ داخلے کیلئے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہورہا ہے، ہر تیسرا ٹین ایجر کرکٹ کے میدان میں آنا چاہتا ہے اسی باعث کچھ خود اور کچھ والدین کے ہمراہ کرکٹر بننے کے شوق میں پشاو میں واقع کرکٹ اکیڈمی میں داخلے کیلئے آتے ہیں ، بعض اوقات 20سال کی عمر کے کھلاڑی بھی داخلے کیلئے آتے ہیں اور انہیں پھر فارم ب میں تبدیلیوں کا کہہ کر داخلہ دیا جاتا ہے.تاکہ قانونی راستے پورے ہوں۔
صوبائی اسپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام معاذ اللہ خان کرکٹ اکیڈمی جو پشاورصدر میں واقع ہے میں ایک سو کے قریب کھلاڑیوں کو تربیت دینے کی جگہ موجود ہے لیکن یہاں پر ساڑھے تین سو کے قریب کھلاڑی تربیت حاصل کررہے ہیں کم و بیش اٹھارہ سال بعد اس اکیڈمی کو انتہائی رش کے باوجود بند کردیا گیا ہے اور یہاں پر گھاس اٹھارہ سال بعد لگائی جارہی ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہاں پر آنیوالوں کی تعداد کتنی زیادہ ہے.یہاں پر آنیوالے کم عمر کھلاڑیوں کا شوق کہیں گے یا پھر ان کے والدین کی بے حسی کہ اتنے کم عمر کھلاڑیوں کو لایاجاتاہے جن کی عمریں آٹھ سال بھی نہیں ہوتی، اور ان پر اللہ کا حق بھی نہیں ہوتا لیکن چونکہ والدین بچوں کو ٹی وی کے اسکرین، اخبارات کے پیجز سمیت سوشل میڈیا پر ان دیکھنا چاہتے ہیں ساتھ میں یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے پاس روزگار بھی ہوں اور پونڈ، یورو او ڈالر بھی ہوں تبھی انہیں بھی بھیجتے ہیں تاکہ کم عمری سے کرکٹ کی تربیت حاصل کرسکیں حالانکہ ان بچوں کی عمریں اپنے والدین سے وابستہ رہنے کی ہوتی ہیں تاکہ وہ آنیوالے کل کیلئے اپنے بچوں کی بہترین کردار سازی کرسکیں لیکن ہائے یہ کرکٹ اور زیادہ کمانے کا شوق کسی کو نہیں چھوڑتا۔
کرکٹ اور زیادہ کمانے کے شوق کے پیش نظر بعض سابق کھلاڑیوں نے صوبے کے مختلف علاقوں میں اپنی کرکٹ اکیڈمیاں بھی قائم کردی ہیں پرائیویٹ طور پر چلنے والے ان اکیڈمیوں میں کچھ اے اور بی کیٹگری کے سابق کھلاڑی کبھی خود اور کبھی تجربہ کار کھلاڑیوں کے تعاون سے کم عمر کھلاڑیوں کو تربیت دے رہے ہیں مردان اور پشاور سمیت مختلف جگہوں پر بننے والے ان پرائیویٹ اکیڈمیوں کی رجسٹریشن کس کے پاس ہوئی ہے اور یہاں پرکس معیار کی تربیت دی جاتی ہیں، کھلاڑیوں سے کتنی رقم حاصل کی جاتی ہیں اور ان اکیڈمیوں کے دیگر ذرائع آمدن کیا ہے اس بارے میں کسی کے پاس کوئی معلومات نہیں، نہ تو صوبائی اسپورٹس ڈائریکٹریٹ ان پرائیویٹ اکیڈمی کے بارے میں کچھ جانتی ہیں نہ ہی ضلع کی سطح پر کام کرنے والے اسپورٹس افسران، کہ وہ یہ دیکھے کہ آیا یہ کرکٹ اکیڈمی معیاری بھی ہے یا نہیں اور دیگر علاقوں سے تربیت کیلئے آنیوالے نوجوانوں کو کس لیول کی تریبت دی جارہی ہیں، ان اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے والے کس معیار کے کھلاڑی بنے ہیں،اب تک کتنے کھلاڑی ان اکیڈمیوں سے نکلے ہیں یا پھر یہ صرف پیداگیری کیلئے بنے ہوئے ہیں، ان کرکٹ اکیڈمیوں سے حاصل ہونیوالی آمدنی میں سرکار کو ٹیکس کی مد میں کتنا جمع کیا جاتا ہے، کیونکہ انہی کی دیکھا دیکھی اب پرائیویٹ گراؤنڈز کا کاروبار بھی چمک اٹھا ہے لیکن یہ سب کچھ حکومت کے اندھے آنکھ کے سامنے ہورہا ہے. اس لئے کھیلوں کے متعلقہ ذمہ داران کیساتھ ساتھ حکومتی ادارے بھی اندھوں کی طرح چل رہے ہیں۔
ان تمام حالات کے پیش نظر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح سیاست کے میدان میں آنیوالوں کے اثاثے چیک کئے جاتے ہیں، ان کا ریکارڈ دیکھا جاتا ہے، اسی طرح لاڈلے شعبے یعنی کرکٹ سے وابستہ تمام افراد، بشمول پرائیویٹ اکیڈمی سے لیکر قومی سطح کے ادارے پی سی بی سے وابستہ تمام افراد کے اثاثے چیک کئے جائے، نہ صرف اثاثے چیک کئے جائیں بلکہ یہ لوگ حقیقت میں کرکیا رہے ہیں اور کس معیار کی تربیت دے رہے ہیں نوجوان نسل کو تربیت دینے والے کون لوگ ہیں ان کا اپنا معیار کیا ہے اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جنہیں جاننا بھوکی ننگی اور دیوالیہ ہونے والے پاکستان کے عوام جاننا چاہتی ہیں کہ اگر کوئی قانون اس ملک ہے تو پھریہ ہر کسی پر لاگو ہوتاہے۔