مزید خبریں

عوام کو رمضان میں تاریخی مہنگائی کا سامنا ہے لیکن حکمران ؟

رحمتوں اور برکتوں بھرا مہینہ رمضان المبارک پھر سے ہمارے سامنے ہے۔ اس ماہِ مقدس میں اللہ رب العزت کی بے شمار فضیلتیں بارش کی مانند اپنے بندوں پر برستی ہیں۔ بلاشبہ رمضان ہمیں بہت کچھ عطا کرنے آتا ہے۔ اور امتِ مسلمہ ثواب اور نیکیاں سمیٹتی ہوئی اس عظیم مہینے سے مستفید ہوتی ہے۔ تاہم، اس کمر توڑ اور بڑھتی مہنگائی میں ماہِ رمضان کا بھرپور لطف اٹھانا کچھ آسان نہیں۔ علاوہ ازیں، مبارک مہینہ آتے ہی خوردنی اشیاء کا مہنگا ہو جانا ایک معمول بن چکا ہے۔ قیمتیں ا?سمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ اور بیشتر چیزیں قوتِ خرید سے باہر نکل جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کفایت شعاری کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ اور اپنے مخصوص بجٹ میں مبارک مہینے کی ہر ساعت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ لہٰذا جائزہ لیتے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی میں رمضان المبارک کا مقدس مہینہ کیسے گزاریں؟ کراچی سمیت ملک بھر میں مہنگائی کے اثرات رمضان کی آمد سے قبل ہی عروج کی منزل عبور کرچکا تھا ہر طرف بازاروں میں مہنگائی کا شور بپا ہے اور اسی دوران آمد رمضان نے ہر چیز کی قیمتوں آگ لگا دی ہے ، بازاروں میں سناٹا ہے شہری محدود مقدار میں اشیائے خورونوش خریدرہے ہیں۔گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال رمضان میں تاریخی مہنگائی کا سامنا ہو رہا ہے ، کراچی کے بازار رمضان کی آمد سے کے بعد سے ہی ویران رہے، خریدار روز مرہ اشیاکی خریداری میں مصروف دکھائی دیے۔
ایک مشکل یہ بھی ہے کہ منافع خور بے قابو ہوگئے، رمضان المبارک سے پہلے ہی ہر چیز کے نرخ میں اضافہ ہوگیا، جس سے عوام شدید پریشان ہیں، منافع خوروں نے پھل اور سبزیاں ، دالیں سمیت دیگر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔شہریوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی نے گھریلو بجٹ آؤٹ کر دیا ہے، جس چیز پر 10 روپے بڑھانے کی ضرورت تھی منافع خور اس چیز پر 20 اور30 روپے اضافی وصول کر رہے ہیں،اتواروں بازاروں میں غیر معیاری اشیاء فروخت کی جارہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
رمضان کے پہلے اتوار کو بازاروں میں شہریوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی نے کمر توڑ کر رکھ دی،رمضان میں دسترخوان سجانا بھی مشکل نہیں نا ممکن ہوگیا ہے ، مہنگے پٹرول، بجلی کے بھاری بلوں سے کچھ بچے تو رمضان کا اہتمام کریں۔گزشتہ سال سے موازنہ کیا جائے تو رمضان میں کثرت سے استعمال ہونے والی بیشتر اشیا کی قیمت میں 50فیصد تک اضافہ ہوا ہے، تیل 100سے 150روپے لیٹر مہنگا ہوا، چائے کی پتی 600 روپے کلو تک مہنگی ہوئی، کھجور کی قیمت بھی دگنی ہوگئی، دالیں چاول اور مصالحہ جات کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔
دکانداروں کے مطابق رمضان کے لیے خریداری کا رجحان 50فیصد تک کم ہے، مخیر حضرات کی جانب سے مستحقین میں تقسیم کیے جانے والے راشن پیک بھی مہنگے ہوگئے ہیں اور راشن پیک میں شامل اشیاکی مقدار اور تعداد بھی کم ہورہی ہے۔کراچی ہول سیل گراسرز گروپ کے مطابق ایک سال کے دوران تھوک سطح پر دال کی قیمت میں 150 سے 200روپے کلو، چاول کی قیمت میں 100سے 200روپے کلو کا اضافہ ہوا، تیل گھی 100سے 150 روپے تک مہنگے ہوئے، آٹے کی قیمت دگنی ہوگئی۔نرخوں کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال رمضان سے قبل تھوک سطح پر ماش کی دال درجہ اول 248روپے کلو فروخت ہوئی جو اس سال 455روپے کلو فروخت ہورہی ہے ماش کی دال درجہ دوم 238 روپے تھی جو اب 415روپے کلو فروخت ہورہی ہے۔
دال مونگ درجہ اول 152 روپے کلو تھی جو اس وقت 295روپے کلو بک رہی ہے دال مونگ درجہ دوم 142 روپے کلو تھی جو ان دنوں تھوک سطح پر 255روپے کلو فروخت ہورہی ہے۔ دال مسور 215درجہ اول سے بڑھ کر 275روپے کلو پر آگئی دال مسور درجہ دوم 205روپے سے بڑھ کر 265روپے کلو بک رہی ہے۔گزشتہ سال رمضان سے قبل تک دال چنا درجہ اول 158 روپے کلو فروخت ہوئی تھی جو اب 236اور درجہ دوم 152کے مقابلے میں 225روپے کلو فروخت ہورہی ہے کابلی چنا درجہ اول گزشتہ سال رمضان سے قبل 280روپے کلو فروخت ہو اجو ان دنوں 515روپے کلو فروخت ہورہی ہے۔
کابلی چنا درجہ دوم 250سے بڑھ کر 345روپے کلو فروخت ہورہا ہے جبکہ چھوٹا چنا جو 205روپے کلو فروخت ہوا تھا اب 325 روپے کلو فروخت کیا جارہا ہے، رمضان میں کثرت سے استعمال ہونے والے کالے چنے جو گزشتہ سال تک 150روپے کلو فروخت ہوئے اب 245روپے کلو جبکہ درجہ دوم 138 سے بڑھ کر220 روپے کلو فروخت ہورہے ہیں۔گزشتہ سال رمضان سے قبل بیسن کی تھوک قیمت 146روپے تھی اس سال بیسن تھوک سطح پر 225روپے کلو فروخت کیا جارہا ہے۔ایک سال قبل تک رمضان میں آٹا ڈھائی نمبر67 روپے اور فائن آٹا 70روپے کلو میں فروخت ہوتا رہا جو اب بالترتیب 140اور 150 روپے فروخت کیا جارہا ہے۔
ایک سال میں درآمدی اشیا کے ساتھ مقامی سطح پر کاشت ہونے والے چاول بھی غیرمعمولی طور پر مہنگے ہوگئے گزشتہ سال رمضان سے قبل تک کرنل باسمتی درجہ اول 180 کا فروخت ہواجو ان دنوں 365 سے 400روپے کلو فروخت ہورہا ہے درجہ دوم کرنل باسمتی 160روپے سے بڑھ کر اب 325روپے کلو فروخت ہورہا ہے عوام کی پہنچ سے ثابت چاول تو پہلے ہی دور تھے لیکن اب پونیہ اور ٹوٹا چاول بھی عوام کی قوت خرید سے باہر چلے گئے پونیہ چاول گزشتہ سال تک 130روپے کلو فروخت ہوا جو اب 275 روپے فروخت ہورہا ہے اسی طرح ٹوٹا چاول 90روپے سے بڑھ کر 225 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔
گزشتہ سال رمضان میں چینی تھوک سطح پر 80 روپے کلو فروخت کی گئی جو اس سال 100روپے کلو فروخت کی جارہی ہے، گزشتہ سال تیل گھی450 سے 500روپے لیٹر فروخت کیے گئے جبکہ ان دنوں گھی تیل کی بڑی برانڈز650 روپے لیٹر اور دوسرے درجہ کی برانڈز 550سے 600 روپے میں فروخت ہورہی ہیں۔ایک سال کے دوران چائے کی پتی کی قیمت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا بڑی برانڈز نے پتی کی قیمت میں فی کلو 600 روپے تک کا اضافہ کردیا جس کے بعد 920گرام پتی کا پیکٹ اب 1550سے 1600روپے تک فروخت ہورہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق رمضان سے پہلے آخری اتوار کو مہنگائی نے بازاروں کا رخ کرنے والے شہریوں کے ہوش اڑا دیئے۔ ملک کے مختلف شہروں میں کھانے پینے کی اشیاء اور کچن میں استعمال ہو نے والی اشیا آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔مہنگائی کے ستائے شہریوں کا کہنا ہے کہ کہیں کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود نہیں۔ شہریوں نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ عوام کو مزید پریشان کرنیوالے منافع خوروں کو کنٹرول کیا جائے۔اسلام ا?باد میں رمضان کی آمد سے پہلے ہی اشیائے ضروریہ مہنگی ہوگئیں،اسلام آباد سے موصول ہو نے والی اطلاعا ت کے مطابق میں سبزی اور پھل فروشوں نے دام بڑھا دیئے۔چند دنوں میں پھل اور سبزیوں کی قیمتوں میں 40تا 50روپے فی کلو گرام اضافہ کردیا گیا۔سبزیوں اورپھلوں کی قیمتوں میں اضافے پر شہریوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے،ماہ صیام کی آمد سے قبل مہنگائی نے عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا تھا اور اب بھی وہ اسی مچکل میں ہیں۔
اسی طرح پشاور سے موصول اطاع کے مطابق پشاور میں رمضان المبارک کی آمد سے قبل شہر کے بازاروں میں مہنگائی کی لہر بر قرار ہے۔ مختلف اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔اب جبکہ رمضان جاری ہے سبزی، پھل، مشروبات اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے نے شہریوں کے اوسان خطا کر دیئے تاہم ضلعی انتظامیہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں بے بس دکھائی دینے لگی جبکہ رمضان کیلئے خریداری کرنیوالے شہری خالی ہاتھ گھروں کو لوٹنے پر مجبور ہیں۔پھلوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگیں،سبزیوں کی قیمتیں بھی بے لگام ہیں جبکہ رہی سہی کسر منافع خوروں نے پوری کر دی جو دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹنے لگے۔
ادھر لاہور کی اوپن مارکیٹوں میں رمضان المبارک سے قبل ہی مہنگائی کا طوفان آگیا ،انتظامیہ کی طرف سے چیکنگ کا سخت نظام نہ ہونے کی وجہ سے دکاندار پھل اور سبزیاں سرکاری نرخنامے کی بجائے من مانے نرخوں پر فروخت کرتے ، اتوار بازاروں میں قیمتیں کنٹرول میں رہیں تاہم کئی اتوار بازاروں میں شہریوں کی جانب سے پھلوں اور سبزیوں کے ناقص معیار کی شکایات کی گئیں۔
کوئی بھی موقع یا تہوار شاپنگ کے بغیر ادھورا ہے۔ تاہم خریداری کے لیے سمجھداری اسی میں ہے کہ کفایت شعاری کو اپنایا جائے۔ اور کفایت شعاری کا پہلا اصول ہے کہ ان اشیاء￿ کو مدِ نظر رکھا جائے جو ضروری ہیں۔ اگرچہ فی زمانہ مہنگائی نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں۔ اور متوسط طبقے کے لیے ضروری چیزوں کا حصول بھی مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن زندگی کا پہیہ چلاتے رہنے کے لیے کچھ عقلمندانہ اقدام ضروری ہیں۔ لہٰذا رمضان کی گراسری شاپنگ سے قبل ضروری اشیاء￿ کی لسٹ بنائیں تاکہ آپ غیر ضروری چیزوں سے پرہیز کر سکیں۔
رمضان کی فضاء ، ماحول، رونق اور گہما گہمی ایک الگ ہی مزہ رکھتی ہے۔ امتِ مسلمہ سال بھر ان حسین لمحات کا انتظار کرتی ہے۔ علاوہ ازیں، سحر و افطار میں مزے مزے کے پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سحری میں پراٹھے، نہاری، کڑاہی جیسی مزیدار ڈشز ، جبکہ افطار میں پکوڑے، سموسے، چاٹ اور دیگر چٹ پٹی چیزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تاہم، اس رمضان 2023 میں صحت افزاء￿ ڈشز کو اپنی فہرست کا حصہ بنائیں۔ اور گھر میں خود سے تیار کریں۔ جیسا کہ فروٹ چاٹ اور دہی بھلے۔ گھر میں تیار کی گئی اشیاء￿ حفظانِ صحت کے اصولوں پر مبنی ہوں گی۔ اور کم خرچ میں بہترین مقدار تیار ہوگی۔ مشروبات میں بازاری ا?ئٹمز کے بجائے گھر میں شکنجبین کا اہتمام کریں۔ اور صحت کے ساتھ اپنے بجٹ کا بھی خیال کریں۔
ماہِ مقدس رمضان میں دوست احباب اور عزیز رشتہ داروں کی دعوتِ افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مزید براں، موجودہ معاشرتی میل ملاپ کے دور میں آؤٹ ڈور دعوتوں کا ٹرینڈ ہے۔ اور بیشتر لوگ ایک دوسرے کی دعوت کے لیے ریسٹورنٹس کا انتخاب کرتے ہیں۔ تاہم، اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لیے گھر میں افطار پارٹی کا ایک منفرد انتظام کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ون ڈش پارٹی کا بندوبست کیا جائے تو کیا ہی بات ہے۔ علاوہ ازیں، پارٹی کے تمام شرکاء آسانی سے دستیاب ایک عزیز کے گھر کا انتخاب کریں۔ اور اپنے گھر میں تیار کردہ ایک ڈش کے ہمراہ پارٹی میں شرکت کریں۔ اس طرح کسی پر بوجھ بھی نہیں ہوگا اور ایک سوشل سرگرمی اور تقریب بھی منعقد ہو جائے گی۔
nn