مزید خبریں

ـ23 مارچ1940 سے 23 مارچ2023 تک

کیا کسی کو اندازہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے83 سال قبل اپنے لیے ایک الگ اسلامی مملکت کا کیساخواب دیکھا تھا، کیا س کی ہم تعبیر پاچکے ہیں؟ اور کیا ہم اپنی اصل منزل کے قریب ہیں یا دور جاچکے ہیں؟ ان تمام حقائق کو جاننے کے لیے تھوڑا سا وقت کبھی نکالیے اور قریب کی کسی لائبریری میں جائیے، وہاں پرانے اخبارات دیکھئے، پڑھئیے تب اندازہ ہوجائے گا کہ ہم نے کیا سوچا تھا اور کہاں پہنچ گئے ہیں، یہ بھی اندازہ ہوجائے گا کون اسلامی مملکت چاہتا تھا اور کون اسے سیکولر اسٹیٹ کی جانب لے جانے کا ہامی اور خواہش مند تھا، کم از کم یہ کام آج کے طالب علوں کو تو ضرور کرنا چاہئے، تب انہیں علم ہوگا کہ پہلاقدم رکھتے ہوئے ہم کس قدر اجتماعیت اور انفرادیت کا شکار تھے، کون اپنی ذات، اپنے مفاد اور خود اپنے سحر کے لذیذ ذائقے کی آہنی گرفت میں جکڑا ہوا تھا اور کون سماج کی جانب دیکھ رہا تھا تب جا کر آپ کے سامنے قریباً ایک صدی پہلے کا نقشہ آجائے گا، ہوسکتا ہے کہ کچھ مایوسی ہو، ہو سکتا ہے کہ بھلائی کا پہلو آپ کو مل جائے، لیکن تاریخ کا رخ ضرور آپ کے سامنے آجائے گا یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں یہ ہمارے تعلیمی نصاب کا کمال ہے کہ آج کی نئی نسل تحریک پاکستان کے اصل مقاصد، اس کی روح اور مملکت پاکستان کے تصور کے بنیادی خیال سے بھی اب ناواقف ہوتی جارہی ہے، یہ راز بھی اب کھل جانا چاہئیے کہ تعلمی نصاب میں ایسی تبدیلیوں کا مقصد کیا تھااور محرک کون تھے اور جو حقائق جانتے تھے وہ بھی خاموش کیوں رہے؟ تحریک پاکستان کو سمجھنے کے لیے اس زمانے کو دیکھیے کہ جب قراردادِ لاہور منظور ہوچکی تھی آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ محمد علی جناح برِصغیر کے طول و عرض میں قائدِاعظم کے لقب سے پکارے جانے لگے تھے اور ان کی مصروفیات میں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اضافہ ہوچکا تھا لہٰذا وہ ہندوستان بھر کے طوفانی دوروں میں مصروف رہنے لگے کچھ روز قبل علی گڑھ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس ہوچکا تھا جس کے بعد وہ کہیں اور جانے کے لیے رختِ سفر باندھے تیار کھڑے تھے۔ ان کی ایک کہنی موٹر کار کے کھلے دروازے پر ٹکی ہوئی تھی اور دوسرا بازو قریبی ستون پر۔ وہ الوداعی گفتگو میں مصروف تھے۔قائدِاعظم نے گاڑی کے دروازے سے کہنی اور ستون سے ہاتھ بیک وقت اٹھایا اور گاڑی میں بیٹھنے کا ارادہ کیا۔ عین اسی وقت جواد میاں آگے بڑھے اور انہوں نے ایک لفافہ مسافر کی طرف بڑھایا۔‘یہ کیا ہے؟انگریزی میں دریافت کیا۔مرزا جواد بیگ کے لب ہلے اور آواز نکلی کہ قائدِاعظم نے جب اپنے مخصوص بھاری لہجے میں سوال کیا تو ایک ثانیہ تو میں خاموش رہا پھر حوصلہ مجتمع کرکے جواب دیا،‘قائدِاعظم! یہ چندہ ہے۔ میری طرف سے۔’‘قائدِاعظم نے مسکرا کر میری طرف دیکھا، ہاتھ بڑھا کر میرا کاندھا تھپتھپایا اور لفافہ شیروانی کی اس جیب میں رکھ لیا جو ان کے دل کے قریب تھی، یہ وہی دل تھا جس میں ہر دھڑکن مسلمانوں کے لیے تھی، کیا تھے اس لفافے میں؟ 10، 10 روپوں کے کڑکتے ہوئے 5 نوٹ،83 سال پہلے اس رقم کی کیا قدر ہوگی؟ ذرا سوچئیے آج کے مقابلے میں؟ لیکن کیا کمال سخصیت تھی اور کیا کمال کے لیڈر تھے، کچھ دنوں بعد جس نے چندہ دیا اسے رسید بھی مل گئی، یہ صرف رسید نہ تھی، ایک مکمل دستاویز تھی، رسید پر لیاقت علی خان کے دستخط تھے،آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل، سیکرٹری جنرل نے رسید کاٹتے ہوئے بھی کمال کردیا کہ رسید پر یہ لکھنا بھی ضروری سمجھا کہ مرزا جواد بیگ کی بھیجی ہوئی یہ رقم ان تک محمد علی جناح کے ذریعے پہنچی
‘ایسے تھے مسلم لیگ کے راہ نماء بانی پاکستان ہمارے قائدِاعظم،
قائدِاعظم کی امانت، دیانت اور صداقت کے واقعات بے شمار ہیں لیکن یہ واقعہ ان کے مزاج میں گندھی ہوئی امانت اور دیانت جیسی خوبیوں کا مظہر ہے اور احتیاط بھی عیاں ہوتی ہے جو وہ قومی مقاصد کے لیے جمع ہونے والے عطیات کے ضمن میں اختیار کیا کرتے تھے۔ آج کے راہنمائوں کی طرح نہیں جو کہتے ہیں کہ میرا تحفہ میری مرضی،قائدِاعظم کو کسی بچے کی طرف سے ملنے والے مالی عطیے کا یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ایک سابق وفاقی سیکرٹری ندیم شفیق ملک مرحوم نے اپنی ایک کتاب میں برِصغیر کے ہزاروں بچوں کے وہ خطوط جمع کردیے ہیں جو انہوں نے اپنے عطیات کے ساتھ قائدِاعظم کو لکھے اور جن کی رسید اور جواب بھی بانی پاکستان کی طرف سے انہیں ملا۔ مسلم لیگ کو ملنے والے عطیات کے سلسلے میں قائدِاعظم نے جو احتیاط روا رکھی، وہ ہمارے کے لیے راہ نمائی اور مشعل راہ ہے۔
ندیم شفیق ملک رقمطرازہیں کہ مرزا صاحب نے ایک بار مجھے بتایا کہ قیامِ پاکستان کے کچھ دنوں کے بعد قائدِاعظم نے محترمہ فاطمہ جناح اور مجھے طلب کیا اور کہا کہ ملک الحمدللہ بن چکا ہے لیکن ہم آج ہیں، کل نہیں ہوں گے میں چاہتا ہوں کہ نوجوانوں کو منظم کرنے کا کام ابھی سے شروع کردیا جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ کام فاطمہ کی نگرانی میں ہو اور تم ان کی معاونت کرو۔ انکار کی گنجائش نہیں تھی لہٰذا فوری طور پر آل پاکستان مسلم یوتھ لیگ قائم کرکے کام شروع کردیا گیا۔ یہ نام بھی خود قائدِاعظم ہی کا دیا ہوا تھا۔ وہ اس تنظیم کے کام کے سلسلے میں پیشرفت کی رپورٹ خود لیا کرتے تھے۔ یہ کام صبح ان کے دفتر کا سرکاری وقت شروع ہونے سے پہلے کیا جاتا تھا۔ مزرا جواد کا قصہ سن لیجئے
قائدِاعظم کے آنے سے پہلے ہی ہم ان کے دفتر پہنچ گئے۔ اس وقت ہمارے ہاتھ میں گورنر جنرل ہاؤس کی اسٹیشنری تھی تاکہ اجلاس میں ہونے والی گفتگو کے نوٹس لیے جاسکیں قائدِاعظم پہنچے تو ان کی پہلی نظر ہی ہمارے ہاتھوں میں موجود اسٹیشنری پر پڑی اور انہوں نے نہایت خفگی سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے؟ پھر اجلاس یہ کہتے ہوئے ملتوی کردیا کہ جب اپنی اسٹیشنری کا انتظام ہوجائے تو رپورٹ دینے آجانا۔’
سرکاری اخراجات میں کمال کی احتیاط، گورنر جنرل کے دفتر میں اس زمانے میں کال بیل ایسی تھی جس کی آواز باہر بیٹھے چپڑاسی تک نہیں پہنچتی تھی اس مشکل کی وجہ سے مشکل پیش آتی، فیصلہ ہوا کہ بجلی کی گھنٹی لگائی جائے۔ گورنر جنرل ہاؤس کے انجینئر سید جعفر علی کی کوشش تھی کہ کام رات کے کسی پہر شروع کرکے صبح قائدِاعظم کے آنے سے پہلے ختم کردیا جائے لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکا قائدِاعظم پہنچے تو کام کرنے والوں کو رخصت کردیا، قائدِاعظم نے انہیںجاتے ہوئے دیکھ لیا،دریافت کہ انہیں چھٹی کیوں دی گئی ہے بتایا گیا کہ ان کے کام کی وجہ سے آپ کو زحمت ہوگی۔ قائدِاعظم نے جواب دیا کہ میری زحمت کو چھوڑیے، کام وقت پر مکمل کرائیے۔ یہ درست نہیں کہ میری وجہ سے ایک دن کا کام کئی دنوں تک بڑھ جائے اور اس کا بوجھ قوم برداشت کرے۔
تو آئیے آج کے دن جائزہ لیا جائے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا میڈیا کہاں کھڑا ہے، آج 23 مارچ ہے اور83واں یوم پاکستان ہے۔ قوم اس عظیم تاریخی دن کو ان حالات میں منا رہی ہے کہ ملک میں شدید سیاسی عدم استحکام ہے، مہنگائی اور سیلاب کے نقصانات نے گھیر رکھا ہے، آئی ایم ایف کی آکاس بیل پورے جسم کو جکڑے ہوئے ہے، اس خطہ میں ہمیں ملک کی سالمیت کے درپے بھارت کی گھنائونی سازشوں‘ گیدڑ بھبکیوں اور جارحانہ رویوں سمیت متعدد چیلنجز کا سامنا ہے آج 23مارچ کا دن ایک بار پھر ہم سے سوال کرتا ہے کہ کیا پاکستان اس مقصد کیلئے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں غداروں کو اعزازات و ایوارڈ سے نوازا جائے اور جنہوں نے پوری زندگی اپنے دیس کیلئے وقف کر رکھی ہے انہیں پاکستان سے محبت کی پاداش میں بے توقیر کیا جائے اور پوری دنیا میں ان کو تمسخر بناکر رکھ دیا جائے۔ پاکستان ہمارے نبی آقا دوعالم حضرت محمد ﷺ کی بشارت کے نتیجے میں ملا ہے۔پاکستان اور اسلام ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ عالمی استعماری طاقتوں نے پاکستان کو تجربہ گاہ بنا رکھا ہے یہاں کبھی عورت مارچ کا تجربہ ہوتا ہے اور کبھی اعتدال پسندی اور روشن خیالی کی آڑ میں لال انقلاب کو ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے لئے نوجوان طبقے کو جھانسے میں لایا جا رہا ہے اس کی ذہن سازی کی جارہی ہے کہ پاکستان کے خلاف آواز اٹھائے گا اسے اتنی ہی پذیرائی ملے گی، باقاعدہ ایک منظم سازش کے تحت نوجوانوں کے دل ودماغ سے نظریہء پاکستان کو مٹایا جا رہا ہے تاکہ ان میں جذبہ حب الوطنی ماند پڑ جائے۔اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں چانکیائی سازشوں کو سمجھنا ہو ۔روزنامہ جسارت اپنے آغاز سے کر آج تک اس محاذ پر ڈٹا ہوا ہے، اور حکومت بلکہ کسی بھی حکومت سے کبھی اس کام کا صلہ نہیں مانگا اور نہ امید رکھی اور نہ توقع، ہے ہم اپناعہد نبھائیں گے اورنظریہ پاکستان کی آبیاری اور تحفظ کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے، ملکی میڈیا بھی گواہ ہے کہ جسارت ناقابل تسخیر قلعہ بن کر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ ادا کررہا ہے اس مناسبت سے آج یوم پاکستان کے موقع پر پوری قوم کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ہم یہ عہد بھی کر رہے ہیں کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ کی حیثیت سے دشمنانِ پاکستان و اسلام کی ہر سازش کا منہ توڑ جواب دیتے جسارت نے نظریاتی بنیادوں پر دفاع پاکستان کا جو بیڑا اٹھایا تھا آج پچاس سال کے بعد بھی اسی طرح کاربند ہے اور ایک مضبوط نظریاتی اخباری ادارہ بن کر ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ کا کردار ادا کر رہا ہے ۔