مزید خبریں

محنت کشوں کی عالمی خبریں

خلیجی ممالک میں مزدوروں کی حالت زار
خلیج کی ریاستوں میں کام کرنے والے پاکستانی محنت کش اپنے آجروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان محنت کشوں کی اکثریت کم اجرتوں پر کام کرتی ہے۔ ان کارکنوں کو غیر انسانی حالات اور پاکستانی سفارت خانوں سے ناکافی امداد کا سامنا ہے۔ یہ تفصیلات ’’رہنے کی قیمت: خلیج میں تارکین وطن کی صحت تک رسائی‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ میں بیان کی گئی ہے جو جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیاء میں سول سوسائٹی نے بنائی ہے۔ اسلام آباد میں اس رپورٹ پر بحث کی تقریب میں پارلیمنٹرینز، بین الاقوامی تنظیم محنت اور وزارت سمندر پار پاکستانی و انسانی وسائل کی ترقی سمیت دیگر اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بے سہارا پاکستانی کارکنان کی بھرتی کے عمل، استحصالی مزدور قوانین اور ان کے ملک کی جانب سے طے شدہ تحفظات کے فقدان کے باعث انہیں سخت ترین حالات کا سامنا ہے۔ پارلیمانی کمیشن برائے انسانی حقوق کے نمائندے نے کہا کہ ان کارکنان کا استحصال صرف ایک
انفرادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ان کے خاندان، کمیونٹی اور سب سے اہم ملکی معیشت کو متاثر کرتا ہے۔ یہ اس نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے جس میں گلف کوآپریٹیو کونسل (جی سی سی) کی چھ ریاستوں میں تارکین وطن کارکنان کی صورت حال اور خاص طور پر ان کی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کے مسئلے کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جہاں تین کروڑ کارکنان، جو کہ وہاں کی آبادی کا تقریباً 50 فیصد ہیں، کام کرتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صحت کی دیکھ بھال تک رسائی خاص طور پر کم اجرتوں والے کارکنان کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ سخت حالات کار میں کام کے باعث صحت پر
متعدد منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تارکین وطن کارکنوںکے لیے صحت کی دیکھ بھال تک رسائی میں امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور اس کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ اس خطے میں بتدریج نجی ہیلتھ انشورنس کے فروغ کے باعث ان کارکنان کو صحت کی دیکھ بھال تک رسائی مزید محدود ہوتی جارہی ہے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ آجروں اور کفیلوں کے لیے بامعنی پابندیاں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں اصرار کیا گیا ہے کہ دوطرفہ سطح پر صحت عامہ کے ماہرین کی تجاویز کی روشنی میں جی سی سی کے ممالک کے ساتھ مفاہمت کی یاداشتوں میں شفاف دفعات کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی بامعنی اور باقاعدہ جائزہ کے عمل کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔