مزید خبریں

ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل اور ان کا حل

یہ مو ضوع بہت اہم اور میرے دل کے قریب ہے۔ اگر صنفی بنیاد پر تنخواہ میں فرق کا تعلق ہے تو صنفی تنخواہ کا فرق اس بات کا ایک پیمانہ ہے کہ ہم افرادی قوت میں مردوں اورعورتوں کی شراکت کو کس طرح اہمیت دیتے ہیں۔فی صد یا ڈالر کے اعداد و شمار کے طور پر ظاہر کیا جائے تو یہ افرادی قوت میں خواتین اور مردوں کی اوسط کمائی کے درمیان فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ دنیا بھر میں تحقیق کرنے والی تنظیمیں اور محقق اس بات پر متفق ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں تنخواہ کا فرق ہر سطح پر اور تقریباً ہر ملک میں موجود ہے چاہے ان ملکوں کا تعلق مغربی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے ہو یا ترقی پزیریا غیر ترقی یافتہ ممالک سے ہو۔ پاکستان میں خواتین تقریباً تمام شعبہ جات میں کام کر رہی ہیں۔ مگر ان کے حالات کار انتہا ئی نا گفتہ بہ ہیں۔ اس میں سر فہرست کارخانوں میں کام کرنے والی اور نجی تعلیمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین شامل ہیں۔ میڈیا میں کام کرنے والی خواتیں کی تو کہانی ہی الگ ہے۔ خواتین میڈیا ورکرز تکنیکی ملازمتوں جیسے کیمرہ ہینڈلنگ، ایڈیٹنگ اور انجینئرنگ سے لے کر خبروں کے مواد جمع کرنا۔ خبریں بنانا۔ فیلڈ رپورٹنگ کرنا اور فیچر پروگرامنگ تک مختلف کرداروں میں حصہ لے رہی ہیں۔ خواتین مرکزی دھارے کی صحافی ہیں جو فرنٹ لائن پر کام کرتی ہیں، تنازعات، قدرتی آفات اور سیاسی تنازعات کی کوریج بھی کرتی نظر آتی ہیں۔
آئی ایف جے میں چھپی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا رکن ہے اور اس نے بنیادی مزدوروں کے حقوق کے کئی کنونشنز کی توثیق بھی کی ہے، جس میں عدم امتیاز، انجمن سازی کا حق اور سماجی تحفظ کی فراہمی شامل ہے۔ پاکستان خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خلاف کنونشن (CEDAW) کا بھی دستخط کنندہ ہے اور اس نے یورپی یونین کے ساتھ ترجیحات کی عمومی اسکیم پر دستخط کیے ہیں، جو کہ ایک جامع معاہدہ ہے جس میں انسانی حقوق کے بارے میں 27 بین الاقوامی کنونشن شامل ہیں۔ جن میں مزدوروں کے بنیادی حقوق اور خواتین کے حقوق شامل ہیں۔ پاکستان کا آئین بھی خواتین اور مزدوروں سمیت اپنے تمام شہریوں کو امتیازی سلوک سے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ سماجی تحفظ ان بنیادی حقوق کا حصہ نہیں ہے جن کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔ 2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد مزدور اور خواتین صوبائی مضامین بن گئے ہیں۔ پاکستان میں مزدوروں اور خواتین سے متعلق قوانین اور پالیسیاں محنت کشوں اور خواتین اور معاشرے کے دیگر پسماندہ طبقات کو حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ پاکستا ن میں اسٹینڈنگ آرڈرز ایکٹ 2015 اور شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ ایکٹ 2015 جیسے قوانین کی ایک لمبی فہرست ہے جو کام کی شرائط اور کام کے حالات اور سماجی تحفظ کے اداروں جیسے کہ کم از کم اجرت بورڈ؛ ملازمین کے سماجی تحفظ کے ادارے؛ میٹرنٹی بینیفٹ ایکٹ، 2017 جو خواتین ورکرز کو کم از کم 4 ماہ کی تنخواہ کی چھٹی اور مرد ملازمین کو کم از کم 10 دن کی پیٹرنٹی چھٹی فراہم کرتا ہے۔مگر یہ تمام قوانین کاغذوں پر بے حد اچھے ہیں ان پر عملدرآمد میں نہ حکومتیں دلچسپی رکھتی ہیں نہ ادارے۔ بہت سی خواتیں ان قوانین تو کجا ان کے بارے میں بنیادی معلومات سے بھی محروم ہیں۔ تقریباً 28 سال سے زیادہ عرصے سے پرنٹ اور براڈ کاسٹ میڈیا میں کام کرنے والی صحافی کے طور پر، میں سمجھتی ہوں کہ خواتین اپنے گھر سے لے کر پیشہ ورانہ زندگی تک ہر سطح پر محکوم ہیں۔ سب سے پہلے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہیں اور دقیانوسی خاندانی اور معاا شرتی تصورات اور روایات کو توڑتے ہوئے کسی نہ کسی طرح پیشہ ورانہ میدان میں آتی ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی آوازوں کو دبانے والا ہے اور تخلیقی، تنقیدی اور آؤٹ آف باکس سوچ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ جامعات میں طلبا کو مالی طور پر خود مختار بننا نہیں سکھایا جاتا اگرچہ کہ اب صورت حال کچھ بہتری کی طرف گا مزن ہے۔ خواتیں جو بچپن سے ہی اپنے گھر کے مردوں پر منحصر ہوتی ہیں یا کر دی جاتی ہیں ، اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی اپنے حقوق کے لیے دوسروں پر ہی منحصر رہتی ہیں۔ پیشہ ورانہ سطح پر، سودے بازی کی صلاحیت سے نابلد یہ خواتین اپنی مراعات اور فوائد کے لیے شاید ہی کوئی سودے بازی کر پاتی ہیں اور عام طور پر کم اجرت اور کم مراعات پر ہی اکتفا کر کے بیٹھ جاتی ہیں۔ وہ اس خوف میں بھی مبتلا رہتی ہیں کہ اگر انہوں نے ان گنے چنے فوائید سے بھی انکار کیا تو انہیں دوسری نوکری نہیں ملے گی۔ ان کی ملازمت کا انتخاب عام طور پر اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ ان کا دفتر گھرکے قریب ہو، ٹرانسپورٹ میسر ہو۔ یا کام کے اوقات آرام دہ ہوں، بس اس کے بعد وہ کم تنخواہ پر سمجھوتہ کر بیٹھتی ہیں۔ ایک اور مسئلہ ان کی شخصیت کو جانچنے کے پیمانے ہیں جو مردوں نے ہی وضع کیے ہیں۔دفتر میں ان کے لباس، ان کے اعتماد اور ان کے سماجی پس منظردیکھ کر ان کی تنخواہ اورمراعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات، خواتین کی تنخواہوں کا انحصار ان کے مرد باس پر ہوتا ہے، جو انہیں اپنی خواہش کے مطابق پروموشن یا انکریمنٹ دیتے ہیں اور خواتین اگر ان کی خواہش کے مطابق کام نہ کریں تو بعض اوقات ملازمت سے برطرفی بھی دیکھنا پڑتی ہے۔

آئی جی آئی گلوبل کی ایک تحقیقی رپورٹ
پاکستان کے مین اسٹریم نیوز میڈیا میں جنس پرستی اور صنفی امتیاز۔ کے مطابق جس کا کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا تھا کہ پاکستان میں جنس پرستی اور صنفی امتیاز کس طرح خواتین صحافیوں کو متاثر کرتا ہے۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (2018-19) نے پاکستان کو صحافیوں کے لیے چوتھا خطرناک ملک قرار دیا۔ کولیشن فار ویمن ان جرنلزم نے پاکستان کو خواتین صحافیوں کے لیے چھٹا بدترین ملک قرار دیا (2019)۔ 2018 میں، گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ نے پاکستان کو 149 ممالک میں 148 ویں نمبر پر نیچے سے دوسرے نمبر پر اجاگر کیا۔ ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے رپورٹ کے مطابق پا کستان میڈیا کی خواتین کے لیے ایک ناشائستہ جگہ قرار پائی۔ اس تحقیق میں پاکستان کے تین بڑے شہروں یعنی کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کام کرنے والی خواتین صحافیوں کے اعداد و شمار جمع کیے گئے۔ اس کا مقصد کام کی جگہ پر امتیازی سلوک کی وجہ سے خواتین صحافیوں کو درپیش مسائل کی چھان بین کرنا تھا۔ جن میں خواتین کو گلاس سیلنگ افیکٹ (ان دیکھی شیشے کی چھت جو ان کی ترقی میں حائل ہوتی ہے) ، تنخواہوں میں فرق اور خواتین میں قیادت کی کمی جیسے عناصر شامل تھے۔ اس تحقیق میں تقریباً 102 خواتین صحافیوں کا سروے کیا گیا، اور 10 سے انٹرویو کیے گئے۔ نتائج پاکستانی میڈیا میں جنس پرستی کے بڑھتے ہوئے رحجانات اور صنفی توازن پر مبنی نیوز میڈیا انڈسٹری کی ترقی پر اس کے مضر اثرات کی نشاندہی کی گئی تھی۔
خواتین عام طور پر فیصلہ سازی کی پوزیشن پر نہیں ہوتیں اور جو خواتین اس پو زیشن تک پہنچ بھی جائیں تو وہ خود اپنے حقوق حاصل کرنے اور اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے میں اتنی مصروف ہوتی ہیں کہ اپنی ماتحت خواتین کی مدد کرنے کے بجائے اپنی ملازمت بچانے کی جدوجہد کرتی ہیں۔ فیصلہ ساز عہدوں پر خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ عام طور پرخواتین کو ان کے مرد باس کی طرف سے ہراساں کیے جانے کا ڈر ہوتا ہے، جو کبھی کبھار ان سے پروموشن اور انکریمنٹ دینے کے لیے ناجائز مطالبات کرتے ہیں۔ اس لیے اقتدار کے نئے عہدوں کی طرف اڑان بھرنے کی بجائے وہ کام جاری رکھنے کے لیے چھوٹے عہدوں اور کم تنخواہ پر کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر خواتین کو گھر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے دہری ذمہ داریاں نبھانا ایسا ہی ہے جیسے دو کشتیوں پر سوار ہونا۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق، پاکستان میں دنیا کا سب سے زیادہ اجرت کا فرق موجود ہے۔ پاکستان میں خواتین اوسطاً مردوں کے مقابلے میں 34 فیصد کم کماتی ہیں۔ لیکن خوش قسمت ہیں وہ خواتیں جو اپنے ہم منصب مردوں کے ساتھ برابری کی سطح پر کام کرتی ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے کہ کام کا دوگنا بوجھ اٹھانے اور اپنے ہم منصب مرد وں کے مقابلے میں زیادہ محنت کرنے کے باوجود مجھے ان کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم تنخواہ ملتی ہے۔ اگر مجھ جیسی خاتون کے ساتھ یہ ناانصافی ہو سکتی ہے تو میں اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں کہ دوسری خواتین پر کیا گزتی ہو گی۔ یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین، پڑھی لکھی۔ صابر، معاملہ فہم اور اچھی انتظامی صلاحیت رکھتی ہیں مگر انہیں اس کا ادراک نہیں۔ اگر ہے بھی تو اظہار مقفود ہے۔ اس کے لیے خواتین کو اچھی سودے بازی کی تکنیک سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، انہیں زیادہ پراعتماد ہونا چاہیے اور فیصلہ سازی کی پوزیشن پر آنے کی کوشش کرنی چاہیے۔