مزید خبریں

!تحریک آزادی کشمیر کے قائد سید علی گیلانی ؒآج بھی زندہ ہیں

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
سید علی گیلانی فرد نہیں ، تحریک تھے ۔زندگی کی آخری سانسوں تک وہ اس تحریک کے مرد مجاہد کے طور پر ثابت قدم رہے ۔جس تحریک سے وہ اصلاً وابستہ تھے وہ تحریک اسلامی ہے اور جس تحریک کے وہ قائد و سالار نفس ناطقہ اور روح رواں تھے وہ تحریک آزادیٔ کشمیر ہے ۔وہ تحریک آزادیٔ کشمیر کو تحریک تکمیل پاکستان سمجھتے ،کہتے اور بیان کرتے تھے اور ان کے لفظ لفظ سے کشمیر بنے گا پاکستان کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔
ہم جانتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کوئی سرحد ی تنازعہ نہیں ،یہ ڈیڑھ کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔اس مسئلہ کا ایک فریق بھارت ہے کہ وہ ناجائز قابض ہے اس نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی آٹھ لاکھ افواج اتاری ہیں ،اس نے رائے شماری کو تسلیم کرکے اس سے غداری کی ہے ۔بھارت اہل کشمیر پر بدترین مظالم ڈھارہا ہے ۔وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کرکے امن عالم کو دائو پر لگا رہا ہے ۔بھارتی حکمران اور سیاستدان اگرچہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تقسیم برصغیر کے فارمولا کو نظر انداز کرکے مسلم اکثریتی علاقہ پر زبر دستی قابض ہیں اس کے باوجود ان کی زبانوں اور بیانوں میں ایک ہی موقف رہتا ہے کہ ’’کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے ‘‘دوسرا فریق پاکستان اور اصل فریق کشمیر ی عوام ہیں ۔یہاں کے عوام بھی مسئلہ کشمیر پر یکسو ہیں ۔وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کو واحد اور متفقہ قومی کشمیر پالیسی سمجھتے ہیں ۔وہ ہر سال 5فروری کو پاکستان کے گلی کوچوں میں ہی نہیں دنیا بھر کی سڑکوں شاہراہوں پر یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں اور قاضی حسین احمد ؒ مرحوم کے صدقہ جاریہ کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیںلیکن پاکستانی حکمرانوں میں یکسوئی کا بحران رہتا ہے ۔کبھی چار نکات ،کبھی 12نکات ۔کبھی چناب فارمولا ،کبھی یونائیٹڈ سٹیٹ آف کشمیر ،کبھی محض لفاظی ،کبھی جھوٹے نعرے کبھی کھوکھلے جملے اور کبھی بے جان بے روح بیان بازی ،اسی طرح مقبوضہ کشمیر کے بعض رہنما بھی آزادیٔ کشمیر کے لئے مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے کبھی کبھی پھر بھارت سے ہی امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں۔
ایسے میں سید علی گیلانی ؒ استقامت کا کوہ گراں بن کر مسلسل بر سرپیکار رہے ہیں ،انسان حیران ہوتا ہے کہ اتنی یکسوئی ،اتنی استقامت ۔اتنا صبر ۔اتنی قربانیاں ۔۔۔!
ع یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں
وہ جب لاکھوں کے مجمع میں ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے کے مسلسل نعرے لگواتے تو دل سینوں سے اچھل کر باہر آجاتے ۔نوجوان تن من دھن قربان کرنے کیلئے تیار ہوجاتے اور بھارتی سامراج سے نہتے ٹکرا جاتے ۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ان کی جدوجہدکے تین پہلو انتہائی نمایاں ہیں۔
1۔وہ بھارت کو غاصب ،ناجائز قابض اور سامراج و استبداد سمجھتے تھے ۔
2۔وہ کشمیر بنے کا پاکستان کے قولاً فعلاً علمبردار تھے ۔
3۔وہ پر امن جدوجہد کے ساتھ ساتھ راہ جہاد کو اختیار کرنے کے قائل ہوچکے تھے ۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام ،مردو زن ،بچے بوڑھے ان پر بے پناہ اعتماد کرتے اور ان سے بھرپور محبت کرتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ایک اعلان پر کشمیر کے طول و عرض میں ہڑتال ہوجاتی،لوگ سڑکوں پر آتے ۔جلوسوں میں پاکستانی پر چم لہرائے جاتے ہیں۔گھروں پر سبز ہلالی پرچم سربلند ہوتا ہے ۔شہیدوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جاتا ہے ۔14اگست کو یوم آزادی منایا جاتا ہے ۔جبکہ بھارت کا یوم آزادی 15اگست کشمیریوں کیلئے یوم سیاہ ہے ۔بھارت کے مقابلے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم میچ جیت جائے تو مقبوضہ کشمیر میں عوام خوشی سے سرشار ہوکر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور آتش بازی کرتے ہیں۔ان کی گھڑیوں کے وقت پاکستان کے مطابق ہیں۔سید علی گیلانی کے نفس گرم کی تاثیر سے کوچہ کوچہ آزادی کے چراغ جلتے اور حریت وطن کے پھول مسکراتے ہیں۔
سید علی گیلانی ؒکشمیر کی آزادی کے سب سے بڑے وکیل ،سب سے بڑے قائد ،سب سے بڑے جنگجو تھے۔انہوں نے بھارتی وزیراعظم وی پی سنگھ کے نام 31دسمبر 1989کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جو خط لکھا۔وہ کشمیر کے مقدمہ کی سب سے مضبوط ،مدلل،تاریخی حوالوں سے بھرپور اور بجائے خود ایک تاریخی دستاویز ہے
مسئلہ کشمیر پر ان کی یکسوئی اس قدر تھی کہ انہوں نے پاکستان کے فوجی حکمران پرویز مشرف کہ جن سے کئی گنا بڑے پاکستانی وہ خود تھے پوری جرأت کے ساتھ کلمۂ حق بلند کیا اور ان کے فارمولوں سے مکمل انکار کیا ۔سید علی گیلانی کا دور طالب علمی پاکستان بلکہ شہر لاہور کا ہے ،وہ بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر قبر اقبال کو تکتے رہتے اور مسجد کے میناروں اور علامہ اقبال کے اشعار سے تسکین قلب و روح کا سامان حاصل کرتے ۔اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان کیلئے ان کادور طالب علمی بھی ایک مثال ہے ،وہ دوشخصیات سے متاثر ہی نہیں ان کو اپنا مرشد سمجھتے ہیں وہ ہیں علامہ اقبال ؒ اور سید ابواعلیٰ مودودیؒ ۔وہ اقبال ؒ کے مرد مومن اور سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کے مرد صالح ہیں۔
حقیقت میں سید علی گیلانی ؒزندہ ہیں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ،اپنے عوام کے دلوں میں ،کشمیری بہنوں ،بیٹیوں کی دعائوں میں ،خون شہیداں کے مقدس لہو کے ہر قطرے میں ۔ اپنے شاہین صفت مجاہدوں کے جذبوں اور ولولوں میں ،تاریخ کی کتابوں میں ،حریت کی داستانوں میں اور دنیا بھر میں آزادی کے متوالوں کی جرأتوں میں ۔آج بھی کشمیر کے چپے چپے سے ،ڈل جھیل پر رواں دواں کشتیوں سے ،چشمہ ویر ی ناگ سے ،سوپورسری نگر اسلام آباد مرغزاروں سے وادی لولاب میں مسکراتے پھولوں سے ۔۔جامع مسجد سری نگر بلند میناروں سے ،باغ بہشت میں شہداء کے مزاروں سے اور سب سے بڑھ کر سید علی گیلانی ؒ کی مقدس قبر پر اگے پھولوں سے ایک ہی صدا آرہی ہے ۔ع ہماری ہستی ہی کیا ہے آخر
بس ایک آوازۂ صداقت
بس ایک شمع فضائے ہستی
دبا سکو تو صدا دبادو
بجھا سکو تو دیا بجھا دو
صدا دبے گی تو حشر ہوگا
دیا بجھے گا تو صبح ہوگی