مزید خبریں

جدوجہدِ آزادی کشمیر اور پاکستانی حکمران

لیاقت بلوچ
نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان
سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان
مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کا ایک نامکمل ایجنڈہ ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر قیامِ امن کو جن مسائل سے شدید خطرات لاحق ہیں ان میں سے بلاشبہ مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے۔ تین ایٹمی قوتوں (پاکستان، بھارت اور چین) کے بیچ واقع خطہ جنت نظیر– وادی کشمیر – پر اْس وقت تک جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے جب تک اس دیرینہ مسئلہ کو وہاں کی عوام کے خواہشات کے مطابق حل نہ کیا جائے۔ پاکستان و بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ ہی کشمیر ہے۔ خدانخواستہ یہ دونوں ایٹمی قوتیں کسی وقت جنگ میں اْلجھ کر ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی اسلحہ استعمال کربیٹھے تو اس جنت نظیر وادی سمیت پورا خطہ ایک ایسی ہولناک تباہی و بربادی کی لپیٹ میں آجائے گا جس کی نظیر نہ تو ہیروشیما و ناگاساکی پر امریکی ایٹمی حملے کی صورت میں ملے گی اور نہ ہی کسی اور سانحے کی شکل میں۔ بدقسمتی سے تقسیمِ ہند کے وقت ریڈکلف ایوارڈ کے دوران ہندو اور انگریز سامراج کی باہمی ساز باز کے نتیجے میں خطہ کشمیر کے پاکستان سے طے شدہ معاہدے کے تحت الحاق کی بجائے وادی میں ہندو فوج کی کثیر تعداد بھیج دی گئی تاکہ وہاں پر موجود آزادی کی روح کو پروان چڑھنے سے روکا جائے۔ اس غیر متوقع اور غیر انسانی فوج کشی کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 22 اکتوبر 1947ء کو پہلی جنگ چھڑگئی جوکہ 05 جنوری 1949 تک جاری رہی۔ ایک سال 2 ماہ اور 2 ہفتہ تک جاری رہنے والی اس جنگ میں دونوں اطراف سے بھاری جانی و مالی نقصان اور بھارتی فوج کے سر پر شکست کے منڈلاتے بادل کو دیکھتے ہوئے بھارتی قیادت نے ایک سازش کے تحت اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹائے اور بالآخر اقوامِ متحدہ کے زیر نگرانی جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول کی خونی لکیر کھینچ دی گئی۔ پاکستان کے حصے میں موجودہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جبکہ بھارت کے پاس وادی کشمیر، جموں اور لداخ کے علاقے چلے گئے۔اقوامِ متحدہ نے بھارتی واویلا پر 1948 میں عارضی جنگ بندی اس وعدے پر کرائی کہ کشمیری عوام کو استصوابِ رائے کا حق دیا جائے گا اور اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے گی، تاکہ کشمیری عوام خود یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ پاکستان کیساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کیساتھ۔ مگر افسوس کہ اقوامِ متحدہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی اپنے اس وعدے پر عملدرآمد نہ کراسکا۔
بظاہر دنیا بھر میں قیامِ امن کا ضامن اقوامِ متحدہ تاریخی طور پر چند بڑی طاقتوں کی جاگیر اور آماجگاہ کے سوا کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکا۔ سابق سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد عملاً یہ ادارہ امریکہ کی لونڈی کا کردار ادا کرتا چلاآرہا ہے۔ روس نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو ویٹو کیا، امریکہ نے بھی اسلام دشمنی کی وجہ سے اس مسئلے پر ہمیشہ دھوکہ دیا۔ پاکستان کی کمزور اور ناقص خارجہ پالیسی نے اس مسئلہ کو اور زیادہ گھمبیر اور حل سے کوسوں دور کردیا۔ پاکستانی حکمرانوں کی سردمہری اور ناقص خارجہ پالیسی کے نتیجے میں چین، ایران اور سعودی عرب جیسے دیرینہ دوست اور حمایتی بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت سے دست کش ہوکر غیرجانبداری کی روش اختیار کرچکے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے کی تجویز بھی کئی دفعہ زیر غورآئی۔ برطانیہ ، امریکہ نے ثالثی کے لیے کردار ادا کرنے کی متعدد پیش کشیں کیں۔ چین نے بھی اس پر آمادگی کا اظہار کیا، ایران نے خدمات پیش کیں، مگر بھارت کی ہٹ دھرمی او ر’میں نہ مانوں’ اور ‘اٹوٹ انگ’ کی رِٹ نے ان تمام ممالک کی کوششوں پربھی پانی پھیرا۔
پاکستانی قوم 1990ء سے ہر سال متواتر یومِ یکجہتی کشمیر پاکستان سمیت دنیا بھر میں مناتی چلی آرہی ہے، تاہم 05 اگست 2019 کو نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت نے بھارتی آئین سے کشمیریوں کو جداگانہ حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کو نکال کر ریاستِ جموں و کشمیر کو 3 حصوں میں تقسیم کرکے انہیں بھارتی یونین کے زیرِ انتظام ایک علاقہ قرار دے دیا۔ اس طرح مودی سرکار نے تنازعہ کشمیر کے اصل فریق پاکستان اور بین الاقوامی ثالث اقوام متحدہ کی رضامندی کے بغیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ (جموں و کشمیر اور لداخ) کی قانونی حیثیت کو تبدیل کرکے اپنے “اٹوٹ انگ” کی تکرار کو عملی شکل دینے کی کوشش کی۔
بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 کے اخراج پر دنیا بھر میں موجود کشمیری و پاکستانی عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ نہ صرف کنٹرول لائن کے آر پار شدید احتجاج ہوا، بلکہ دنیا بھر میں مودی سرکار کے اس آمرانہ اور غیرانسانی، غیرقانونی اقدام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں احتجاج روکنے اور دبانے کے لیے اہم سیاسی رہنما،کارکن اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے نمائندے جیلوں میں ڈال دیے گئے، کشمیریوں کا باہر کی دنیا سے رابطہ منقطع، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطے بند کیے گئے، کشمیریوں کی سیب اور دیگر فصلیں کھیتوں اور باغات میں ہی گَل سڑ گئیں، صحافیوں کی کوریج پر مکمل پابندی عائد کردی گئی، پوری وادی میں کرفیو نافذ کرکے کشمیریوں کو گھروں میں محصور رہنے پر مجبور کیا گیا، کھانے پینے اور دیگر ضروریاتِ زندگی تک عوام کی رسائی ناممکن بنادی گئی، تعلیمی ادارے، پبلک ٹرانسپورٹ، ہسپتال وغیرہ بند اور کاروبار تباہ کردیے گئے، مودی سرکار مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہوگئی، آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھارتی فورسز نے کشمیری عوام پر سیدھی فائرنگ کی، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر سے آنے والی رپورٹس اور بیانات میں ساری صورت حال واضح تھیں۔ یوں مقبوضہ جموں و کشمیر کی پوری وادی عملاً دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کردی گئی۔ بھارت نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیری عوام کے ساتھ براہِ راست جنگ کا ماحول بنا دیا۔
مودی کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے اقدام پر پاکستانی حکومت اور حکمرانوں کا طرزِ عمل بچگانہ اور کشمیری عوام اور پاکستانی قوم کی اْمنگوں کے بالکل برعکس تھا۔سابق وزیر اعظم نے اس اہم موقع پر بین الاقوامی برادری کو متحرک کرنے اور مسئلہ کشمیر کو سیاسی، سفارتی ذرائع سے مؤثر بین الاقوامی فورمز پر بھرپور انداز میں اٹھانے کی بجائے ایسے بیانات دیے جو کشمیریوں کے زخم پر نمک پاشی کے مترادف تھے۔ انہوں نے پْرعزم اور پْرجوش کشمیری نوجوانوں کی طرف سے غاصب بھارتی سرکار کے خلاف بطور احتجاج کنٹرول لائن تک جانے کی خواہش کو غداری قرار دیا اور ایسا کرنے والوں کو گرفتار کرنے کی دھمکیاں دیں۔ نیز حسبِ دستور کشمیری عوام سے جھوٹے وعدے کیے کہ وہ اس دفعہ اقوامِ متحدہ میں جاکر مسئلہ کشمیر کو حل کرالیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔اس کے برعکس کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کے سامنے مقبول پاکستانی مؤقف رکھنے کی بجائے موجودہ وزیر اعظم نے بھی مودی سے ہی امن کی توقعات وابستہ کرلیں، جس پر کشمیری اور پاکستانی عوام نے انہیں خوب آڑے ہاتھوں لیا اور اس غیرذمہ دارانہ، ریاست مخالف بیانیہ پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔مودی سے امن کی توقعات رکھنے والی حکومت اس قدر رجائیت پسندی کا شکار ہوئی کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مسئلہ کشمیر اور وہاں ہونے والے بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے پیش ہی نہ کرسکی،

مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی سفارتی تیاری اس قدر کمزور ہے کہ اِسے ثالثی کے لیے بار بار امریکا کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے بھی ثالثی کی بات کی۔ کسی بھی طرح کی ثالثی کے لیے ضروری ہے کہ تنازع کے تمام فریق ثالثی کو قبول کریں۔ لہٰذا مودی سرکار کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر کسی بھی ثالثی کو ماننے سے صاف انکار کردیاگیا۔
مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق پاکستانی عوام کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ کشمیریوں کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیا جائے، اور اس کے لیے کشمیر میں ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ کشمیری عوام یہ فیصلہ خود کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ بہت ہی مثالی صورت حال ہوگی۔ لیکن بھارت کی طرف سے کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے مسلسل انکار اور پاکستانی حکومت کی عدم توجہی سے آج حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ کشمیر کی خودمختاری بھی چھین لی گئی ہے جس کے بعد ریفرنڈم کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔
حکومت کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر جیسے دیرینہ علاقائی اور پاکستان و بھارت کے مابین بنیادی مسئلے کو کشمیری عوام اور پاکستانی قوم کے دیرینہ موقف کے مطابق حل کرکے تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے لکھوائے ورنہ یہ سعادت تو آئندہ آنے والے کسی نہ کسی حکمران کے حصے میں آہی جائے گی، ان شاء اللہ، لیکن موجودہ حکمران بہرحال اس بہت بڑی اور تاریخی کامیابی سے محروم رہیں گے۔کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر پاکستان کو عالمی اور علاقائی سطح پرمندرجہ ذیل سفارتی، سیاسی کوششیں فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے:
lوادی میں پچھلی سات دہائیوں سے جاری کشیدگی کو کم کرنے اور کشمیری عوام پر جاری بھارتی ظلم و بربریت کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں قائم پاکستانی سفارت خانوں کے ذریعے مؤثر سفارت کاری کی جائے۔
lمسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ نے کم و بیش 30 قراردادیں پاس کیں جن میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کشمیری عوام کے استصوابِ رائے کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ اب اقوامِ متحدہ اپنے وعدوں پر عمل کرے اور کشمیری عوام کو رائے شماری کا حق دیا جائے۔
lکشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دے کر وہاں پر اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں استصوابِ رائے کے لیے اقدامات۔
lعالمی برادری کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ کشمیری عوام پر عرصہ دراز سے جاری بھارتی فورسز کے مظالم روکنے کے لیے مؤثر اور نتیجہ خیز دباؤ ڈالے۔
lدونوں ممالک (پاکستان و بھارت) دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا ایسا حل تلاش کریں جو کشمیری عوام کو قابل قبول ہو۔
lدونوں فریق (پاکستان و بھارت) کسی متفقہ ثالث کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرائیں۔
lعالمی عدالتِ انصاف مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سو موٹو ایکشن لے۔
lکشمیری اور بھارتی جیلوں میں قید ہزاروں بے گناہ کشمیریوں اور سیاسی قیادت کی بلاتاخیر اور غیرمشروط رہائی۔
lبھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کی سابقہ حالت میں فی الفور بحالی۔
lکشمیری عوام کو کنٹرول لائن کے آر پار نقل و حرکت کا حق دلانے کے لیے سیاسی اور سفارتی کوششیں۔ نیز کشمیر میں انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی مندوب کا تقرر۔
lامریکہ یا عالمی برادری کی طرف سے ثالثی کی کسی بھی کوشش میں اس بات کو یقینی بنانا کہ کشمیری عوام کے سیاسی مستقبل کے فیصلے میں خود کشمیری عوام کی رائے کو بنیادی اہمیت حاصل ہوگی، اور کشمیر کے مستقبل سے متعلق کیا گیا کوئی بھی یکطرفہ فیصلہ کشمیری عوام اور پاکستانی قوم کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔
lمسئلہ کشمیر کے حل کی طرف بڑھنے سے پہلے دونوں ممالک (پاکستان و بھارت) عسکری کشیدگی کا خاتمہ اور جنگ سے گریز کا کوئی تحریری فارمولہ بھی سامنے لائے۔ بھارت آمادہ ہو تو دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے سے ہی یہ مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ دونوں ممالک کے قیادت کی طرف سے مسئلے کے پائیدار حل کی طرف بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات سے گریز اور باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔
lاگرچہ جنرل پرویز مشرف اور بھارتی قیادت کے درمیان مذاکرات کشمیری عوام اور پاکستانی قوم کے دیرینہ مؤقف کی سراسر خلاف ورزی پر مبنی ایک فارمولہ کی بنیاد پر کیے گئے تھے، تاہم ان مذاکرات میں بعض اْمور اور اقدامات، جن پر اتفاق ہوگیا تھا، حوصلہ افزا تھے۔ ان میں کنٹرول لائن کے دونوں طرف موجود افواج کی تعداد میں کمی، کشمیریوں کی کنٹرول لائن کے آر پار آزادانہ نقل وحرکت اور کشمیریوں کا اپنے خطے پر حق حکمرانی شامل تھا۔
lپاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی سطح کے مذاکرات کے آغاز سے قبل کشمیری اور پاکستانی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جانا ازحد ضروری ہے۔ کشمیری اور پاکستانی سیاسی قیادت اور عوام کی مرضی کے بغیر مسلط کردہ کوئی بھی فیصلہ خطے کو ایک نئی جنگ اورتنازعہ کی طرف دھکیلنے کا باعث ہوگا۔
lتنازعہ کشمیر کے حل کے لیے اب تک کی گئی کوششوں میںجس بنیادی حقیقت کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا، وہ یہی ہے کہ تنازعہ کے بنیادی فریق یعنی کشمیری عوام اور پاکستانی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر اور انہیں مذاکرات کا حصہ بنائے بغیر مذاکرات کیے گئے جوکہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے۔
مسئلہ کشمیر کا واحد حل کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے میں مضمر ہے۔ جتنی جلد ہمارے حکمران اس حقیقت کو سمجھ پائیں اتنی ہی جلد یہ مسئلہ حل ہوکر تاریخ کا حصہ بن پائے گا۔ کشمیری شہداء، خواہ وہ سید علی گیلانیؒ ہوں یا محمد اشرف صحرائی، یا میدانِ جہاد میں غاصب بھارتی سورماؤں کو تگنی کا ناچ نچانے والے جرأت مند کشمیری مجاہدین برہان مظفر وانی شہید اور جہادِ کشمیر کے دیگر کمانڈر یا پھر جامِ شہادت نوش کرنے والے کشمیری نوجوان، عورتیں، بزرگ، بچے ہوں، ان سب کی قربانیوں کا تقاضا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے دیرینہ اور پائیدار حل کے لیے تینوں بنیادی فریق (کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت) کی باہمی رضامندی سے ایک ایسا حل نکالا جائے جو کشمیری عوام کے لیے قابل قبول ہو۔اگر یہ ساری کوششیں بھی خدانخواستہ بارآور ثابت نہ ہوں تو پھرتنازعہ کشمیر کے حل کی ایک ہی قابل عمل صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ جہادِ کشمیر کامیابی سے ہمکنار ہو، اور افغان عوام کی طرح کشمیری عوام کو بھی آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھنا نصیب ہو۔ ان شا ء اللہ!