مزید خبریں

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی اور جنت کی بشارت

رسول اکرم  اپنے دور کے سفارتی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف مما لک کے سربراہان کے نام اپنے خطوط پر مہر لگانے کا اہتمام فرمایاکرتے تھے۔ اس کے لیے آپ نے بطور خاص انگوٹھی بنوائی جس پر ’’ محمد رسول اللہ‘‘کے الفاظ کندہ تھے۔آپ کے ہر گرامی نامے کے  ذیل میں یہ مہر لگی ہو تی تھی۔آپ کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی حضرت عائشہ صدیقہ کے سپردکردی گئی۔جب حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ مقرر ہوئے  تو حضرت عائشہ نے یہ انگوٹھی ان کے حوالے کردی۔حضرت ابوبکر کی  وفات کے بعد یہ انگوٹھی حضرت عمر فاروق کو ملی۔حضرت عمر نے انتقال سے پیشتر وہ انگوٹھی ام المومنین حضرت حفصہ کے پاس رکھوادی اور  ہدایت کی کہ جو  خلیفہ منتخب  ہو  اس کے سپرد کردی جائے  چنانچہ جب حضرت عثمان بن عفان خلیفہ بنے تو یہ انگوٹھی ان تک پہنچی اور ان سے ہی ایک کنویں میں گر گئی۔جس کنویں میں یہ انگوٹھی گری تھی اس کا نام’’ بئر اریس‘‘ یعنی  اریس کا کنواں ہے۔ اریس جس کا مطلب کسان ہے۔  اس کنویں کو’’ بئر النبی‘‘ یعنی نبی اکرم  کا کنواں بھی کہا جاتا ہے  تاہم انگوٹھی گرنے کے بعد اس کا نام’’ بئر الخاتم‘‘ انگوٹھی کا کنواں پڑگیا۔ اس کنویں کی تاریخ میں اہم مقام ہے۔یہ کنواں مسجد قبا کے مغرب میں اْس وقت کے صدر دروازے سے 42میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ ابن نجار کے مطابق کنویں کی گہرائی 6.3میٹر اور چوڑائی2.2میٹر تھی جبکہ پانی کی سطح 1.3میٹر تھی۔ بعد کے ادوار میں کھدائی کرکے اس کی گہرائی 8.5میٹر کردی گئی۔1317ء میں کنویں کی تہ تک  اتر نے کیلئے سیڑھیاں تعمیر کی گئیں لیکن یہ زینہ کس نے تعمیر کرایا اس پر مورخین کا اختلاف ہے۔ عثمانی دور حکومت میں  اس کنویں پر گنبد تعمیر کرایا گیا  اور ایک دوسرا گنبد اس کے جنوبی سمت میں تعمیر کرایا گیا۔دونوں گنبد شکستہ حالت میں تھے۔ جب 1964ء میں مسجد قبا کا  چوک تعمیر کرنے کا منصوبہ  بنا ،  تب مدینہ منورہ  میونسپلٹی نے  انہیں منہدم کرا دیا۔ بعد ازاں مسجد  قبا چوک  بنانے کے لئے  زمین کو  ہموار کیا گیا اور  ایسا کرنے سے  وہ کنواں بھی دفن ہوگیا تھا۔لیکن اب دوبارہ مسجد قبا تعمیر وتوسیع کے بعد اس کے مفقود آثار نمایاں ہوچکے ہیں۔صحیح مسلم میں ہے کہ ا یک دن رسول اکرم  اس کنویں پر اپنی ٹانگیں لٹکائے تشریف فرماتھے کہ حضرت ابوبکر الصدیق اور حضرت عمر ابن خطاب بھی  وہاں آگئے اور   رسول اکرم کے قریب بیٹھ گئے۔تھوڑی دیر بعد حضرت عثمان بن عفان  بھی وہاں پہنچ گئے اور رسول اکرم کے قریب جگہ نہ پاکر تینوں کے سامنے بیٹھ گئے۔ اپنے تینوں صحابہ کرام کو  بیٹھا  دیکھ کر  رسول اکرم نے  انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پانے کی  بشارت دی۔ اسی نسبت سے اس کنویں کو  بئر النبی  بھی کہا جاتا ہے۔حضرت عثمان بن  عفان کی خلافت کا زمانہ تھا جب وہ اس کنویںپر  اسی طرح بیٹھے تھے جس طرح رسول اکرم اور اپنے دونوں ساتھیوں حضرت ابوبکر اور حضرت عمرکے ساتھ تھے کہ انگوٹھی ان کے ہاتھ سے نکل کر کنویں میں جاگری۔آپ نے اس کنویں کا سارا پانی نکلواکر اس کی ریت کو اچھی طرح چھنوایا مگر وہ نہیں ملی۔انہوں نے 3دن تک کنویں کے اندر انگوٹھی کو تلاش کروایا مگراس کے باوجود   انگوٹھی نہیں ملی۔ خاتم نبوی کے اس طرح گم ہوجانے پر آپ  کو سخت ملال ہوا۔بعد میں بھی اس انگوٹھی کی تلاش کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں مگر وہ کسی کو  نہیں ملی۔بعض مورخین کا کہنا ہے کہ حضرت عثمان نے بعد ازاں اسی شکل کی انگوٹھی بنوائی تھی۔