مزید خبریں

مقامات مقدسہ سے متعلق دلچسپ معلومات و روایات

جو زائرین مدینہ منورہ جاتے ہیں وہ احد کے میدان کی عموما زیارت کرتے ہیں۔ اس میدان میں وہ عام طور سے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی قبر مبارک ،مسجد شہدا ئے احد کے پہاڑ اور جبل رماہ کی ضرور زیارت کرتے ہیں ۔جبل رماہ وہ پہاڑی جس کے اوپر ایک درہ موجود تھا اور اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کی جنگ والے دن 50 تیر انداز متعین کیے تھے جنہوں نے یہ سمجھ کر کہ مسلمانوں کو فتح ہو گی ہے، بیچ جنگ میں درے کا پہرہ چھوڑ دیا تھا جس کی وجہ سے فرار ہونے والا دشمن ، درے کو خالی دیکھ کر پلٹا اور مسلمانوں پر ایک شدید ضرب لگائی جس کی وجہ سے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت بھی ہوئی اور مسلمانوں کو کم و بیش 70 جانوں کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔جبل رماہ ایک قدرے چھوٹی پہاڑی ہے ، اس لیے لوگ عموما اس پر چڑھ بھی جاتے ہیں ۔ لیکن یہاں تک پہنچنے کے باوجود علم نہ ہونے یا مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ذرا سی گردنیں نہیں گھماتے ۔ اگر وہ گردنیں گھمائیں تو انھیں تھوڑے فاصلے پر ایک اور پہاڑ نظر آئیے گا ۔ اس پہاڑ کی ایک خاص نشانی یہ ہے کہ اس کے ٹاپ پر آپ کو ایک وسیع و عریض محل بھی بنا نظر آئیے گا ۔اس پہاڑ کی حقیقت اگر آپکو پتا چل جایے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اپ اس کی زیارت سے کبھی رہ جائیں۔ آپ یقینا ایمان بھرے دلوں سے اسکو بیتابی سے دیکھیں گے اور احد میں موجود دوسرے مسلمانوں کو بھی فخر سے اس کی زیارت کرائیں گے ، کیوں کہ قرب قیامت کی ایک معروف نشانی یہ ہے کہ دجال روے زمین پر ظاہر ہوگا اور پوری دنیا کو اپنے فتنے کی لپیٹ میں لیے گا – دجال کا فتنہ بہت فطین فتنہ ہوگا – وہ لوگوں کو روٹی دکھایے گا اور لوگ اسکے پیچھے بھاگیں گے – جو چیز وہ جنت کے چیز بنا کر یعنی خو شنما بنا کر دکھائے گا۔ رسول اللہ ﷺنے دجال کے فتنے سے بچنے کے لیے ہمیشہ اللہ کی پناہ مانگی ہے – دجال ایک آنکھ سے کانا ہوگا اور اسکے ماتھے پرک ، ف ، رلکھا ہوگا۔ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے کہ دجال پوری دنیا کو اپنے کنٹرول میں کر لے گا مگر مکہ اور مدینہ میں داخل نہ ہوسکے گا کیوں کہ ان دونوں شہروں کے گرد اللہ کے فرشتے محافظ کی صورت میں موجود ہونگے۔مدینہ المنورہ کے قریب جب وہ پہنچے گا تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک پہاڑ پر چڑھ جائے گا جہاں سے اسکو مقدس و محترم مسجد نبوی نظر آیے گی اور اس وقت وہ انتہائی بے بسی سے مسجد نبوی کے جانب اشارہ کر کے اپنے ساتھیوں سے کہے گا کہ: کیا تم لوگ وہ سفید محل دیکھ رہے ہو؟وہ احمد کی مسجد ہے ۔ لیکن دجال اس پہاڑ سے آگے نہ جا سکے گا – یہ پہاڑ مدینہ میں آپ بڑی آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔جب احد کے زیارت پر جائیں تو یہ پہاڑ احد کے میدان سے نظر آتا ہے۔ دجال مدینہ کے سات داخلی راستوں سیاندر داخل ہونے کی کوشش کرے گا مگر ہر راستے پر اسے ایک فرشتے کی صورت میں نگہبان ملے گا اور وہ نامراد ہو جائے گا – پھر وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہو گا اور مدینہ کی مغربی سرزمین الجرف میں خیمہ زن ہوگا ۔اس دوران مدینہ منورہ کی زمین 3مرتبہ اللہ کے حکم سے ہلائی جائے گی جس کے نتیجے میں
مدینہ میں بسنے والے تمام منافق بھاگ کھڑے ہوں گے اور پورے مدینہ میں صرف باایمان لوگوں ہے رہ جائیں گے۔ اس وقت تک سیدنا عیسی علیہ السلام دنیا میں تشریف لا چکے ہونگے اور وہ دجال کا پیچھا کریں گے اور ارض فلسطین میں لدکے مقام پر اسے قابو کر لیں گے۔ اسی طرح مسجد شجرہ ، مدینہ کے باہر کی اہم مساجد میں سے ایک اہم مسجد ہے اور احرام باندھنے کے لیے میقاتوں میں سے بھی ایک اہم میقات اور مسجد ہے۔ رفقائے ختم نبوت ہمیشہ سے اسی مقام راحت سے مکہ شریف کے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ جولوگ بھی حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ جانے کا قصد کرتے ہیں چاہے وہ مسافر ہوں یا مکین وہ احرام باندھے بغیر اس شھر میں داخل نہیں ہوسکتے ہی۔ ، مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جانے کے راستے میں مدینہ سے باہر مسجد النبی سے 8 کیلومیٹر  جنوب میں ، مسجد قبا سے تین کلومیٹر کے بعد ذو الحلیفہ علاقے میں مسجد شجرہ یا میقات ذو الحلیفہ واقع ہے۔یہ مسجد ان لوگوں کا میقات ہے  جو مدینہ منورہ سے حج یا عمرہ کے لیے جاتے ہیں۔مسجد شجرہ اس جگہ واقع ہے جہاں آں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے مکہ جاتے وقت سمرہ درخت کے نیچے نماز پڑھی اور اسی وجہ سے اس مسجد کا نام مسجد شجرہ رکھا گیاہے۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ خداوند متعال نے حضرت رسول اکرم ﷺکے ذریعے وحی کی سرزمین میں کچھ ایسے میقات معین کیے ہیں جو مقدس ہیں اور مسجد شجرہ بھی ان ہی مقدس جگہوں میں سے ایک ہے۔ جو مسلمانوں کے نزدیک کافی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ آںحضرت نے اپنی ہجرت کے چھٹے سال کے سفر کے دوران جس میں صلح حدیبیہ منعقد ہوئی اسی جگہ سے احرام باندھا، اور ساتویں سال میں عمرۃ القضا کے انجام دینے کے لیے اور دسویں سال حج ا الوداع انجام دینے کے لیے وہیں سے احرام باندھا۔ قدرتی بات ہے کہ اس جگہ کی اہمیت دینی اعتبار سے اہم ہے اورہمیشہ  لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔گزشتہ صدیوں میں اس جگہ کوبئر علی یاآبار علی کے نام سے جانتے تھے۔ مسجد شجرہ آٹھویں ہجری میں خستہ ہوئی لیکن پھر بھی لوگ اس کو استعمال کرتے تھے شاید پہلی تعمیر میں نماز پڑھنے کی جگہ اور ایک آنگن تھا۔ لیکن آٹھویں اور نویں صدی میں اس کے گرد ایک دیوار تھی ، یہ مسجد عثمانی دور میں ۸۵۰۱ ھ میں ہندوستاں کے ایک مسلمان کے ذریعے دوبارہ بنائی گئی اور اس کے لیے مینار بھی تعمیر کیا گیا۔ مسجد کی آخری تعمیر ملک فہد بن عبد العزیز کے زمانے میں واقع ہوئی اور ایک بہت بڑے رقبہ پر مسجد اور اس سے ملحق ضروریات جیسے پارکنگ اور باتھ روم بنائے گئے ۔
OOO