مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

بے کار لوگ
ہم اس بات کے بھی کبھی قائل نہیں رہے کہ اگر ہمارے ساتھ دو چار یا دس بیس فی صدی بے کار آدمی آگئے ہوں، یا اب بیکار ہوگئے ہوں تو ہم ان کی خاطر اپنی راہ کھوٹی کریں اور بیٹھ کر اپنے لائحہ عمل پر نظرثانی شروع کر دیں۔ ہم پہلے بھی سیکڑوں بے کار ساتھیوں کو چھانٹ کر پھینک چکے ہیں اور اب بھی یہی کریں گے۔
ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ قافلے کو اپنے نصب العین کی طرف مسلسل پیش قدمی جاری رکھنی چاہیے۔ جو ساتھ چل سکتا ہو وہ چلے اور جو نہ چل سکتا ہو وہ الگ ہو جائے۔ یا خود الگ نہ ہو تو الگ کر دیا جائے۔ درماندگان راہ کو سنبھالنے اور آگے لے چلنے کی کوشش تو ہم ضرور کریں گے، مگر ان کی خاطر اپنی راہ کھوٹی نہ کر یں گے اور نہ کوئی ایسا قدم اٹھانے سے باز رہیں گے جو ہمارے مقصد کے لیے ضروری ہو۔(تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل)
٭…٭…٭
عورتوں کے معاملے میں
اسلام کا اصول یہ ہے کہ عورت اور مرد عزت و احترام کے لحاظ سے برابر ہیں۔ اخلاقی معیار کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔ آخرت میں اپنے اجر کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔لیکن دونوں کا دائرۂ عمل ایک نہیں ہے۔ سیاست اور ملکی انتظام اور فوجی خدمات اور اسی طرح کے دوسرے کام مرد کے دائرۂ عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس دائرے میں عورت کو گھسیٹ لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو ہماری خانگی زندگی بالکل تباہ ہو جائے گی، جس کی بیش تر ذمے داریاں عورتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یا پھر عورتوں پر دہرا بار ڈالا جائے گا کہ وہ اپنے فطری فرائض بھی انجام دیں جن میں مرد قطعاً شریک نہیں ہو سکتا، اور پھر مرد کے فرائض کا بھی نصف حصہ اپنے اوپر اٹھائیں۔
عملاً یہ دوسری صورت ممکن نہیں ہے، لازماً پہلی صورت ہی رونما ہوگی، اور مغربی ممالک کا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ رونما ہو چکی ہے۔ آنکھیں بند کر کے دوسروں کی حماقتوں کی نقل اتارنا عقل مندی نہیں ہے۔(رسائل و مسائل)
٭…٭…٭
ہماری مخالفت
ہماری مخالفت کسی خاص جماعت سے نہیں، بلکہ اس نظام زندگی سے ہے جو خدا کی اطاعت کے سوا کسی دوسرے اقتدار کی اطاعت پر، اور خدائی قانون و ضابطے کے سوا کسی دوسرے قانون و ضابطے کی پابندی پر قائم ہو۔ ہم کسی گروہ سے نہیں بلکہ اس نظام سے برسرپیکار ہیں۔
٭…٭…٭
اطاعتِ رسول کا تقاضہ
رسول کے آنے کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ زندگی کا جو قانون وہ لے کر آیا ہے، تمام قوانین کو چھوڑ کر صرف اس کی پیروی کی جائے، اور خدا کی طرف سے جو احکام وہ دیتا ہے، تمام احکام کو چھوڑ کر صرف انھی پر عمل کیا جائے۔ اگر کسی نے یہی نہ کیا تو پھر اس کا محض رسول کو رسول مان لینا کوئی معنی نہیں رکھا۔
(سیرت سرورعالمؐ)