مزید خبریں

! قربانی کی فضیلت اور اہمیت

قربانی کا مسئلہ متفق علیہ مسائل میں سے ہے۔ پہلی صدی ہجری کے آغاز سے آج تک مسلمان اس پر متفق رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ کی پوری چودہ صدیوں میں آج تک اس کے مشروع اور مسنون ہونے میں اختلاف نہیں پایا گیا۔اس میں آئمہ اربعہ اور اہل حدیث متفق ہیں۔ اس میں شیعہ اور سنی متفق ہیں۔ اس میں قدیم زمانے کے مجتہدین بھی متفق تھے اور آج کے سب گروہ بھی متفق ہیں۔
قربانی کے لیے نبی اکرمؐ نے اس خاص دن کا انتخاب فرمایا جس دن تاریخ اسلام کا سب سے زیادہ زریں کارنامہ سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام نے انجام دیا تھا، یعنی یہ کہ بوڑھا باپ اپنے رب کا ایک اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر دینے کے لیے ٹھنڈے دل سے آمادہ ہوگیا اور بیٹا بھی یہ سن کر کہ مالک اس کی جان کی قربانی چاہتا ہے چھری تلے گردن رکھ دینے پر بخوشی راضی ہوگیا۔ اس طرح یہ محض قربانی عبادت ہی نہ رہی بلکہ ایک بڑے تاریخی واقعے کی یادگار بھی بن گئی جو ایمانی زندگی کے اس منتہائے مقصود، اس کے آئیڈیل مثل اعلیٰ کو مسلمانوں کے سامنے تازہ کرتی ہے کہ انہیں اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ قربانی کا حکم بجا لانے اور عید کا تہوار منانے کے لیے سال کا کوئی دن بھی مقرر کیا جاسکتا تھا اس سے دوسرے تمام فوائد حاصل ہو جاتے مگر یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا اس کے لیے اس خاص تاریخ کا انتخاب ’’بیک کرشمہ دوکار‘‘ کامصداق ہے۔ ایک حدیث میں نبی اکرمؐ نے خود اس انتخاب کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے۔ آپ سے پوچھا گیا: ’’ما ھذہ الاضاحی‘‘ یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ فرمایا: ’’سنۃ ابیکم ابراھیم‘‘ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابراہیمؑ اس واقعے کے بعد ہر سال اسی تاریخ کو جانور قربان فرمایا کرتے تھے۔ نبی اکرمؐ نے اس سنت کو زندہ کیا اور اپنی امت کو ہدایت فرمائی کہ قرآن میں قربانی کا جو عام حکم دیا گیا ہے، اس کی تکمیل خصوصیت کے ساتھ اس روز کریں جس روز ابراہیم علیہ السلام اپنی اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کیا کرتے تھے۔
قربانی کے لیے اس دن کے انتخاب میں ایک اور مصلحت بھی تھی۔ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال جب حج کا زمانہ آیا تو مسلمانوں کو یہ بات بری طرح کھل رہی تھی کہ کفار نے ان پر حرم کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ نبی اکرمؐ نے اس غم کی تلافی اس طرح فرمائی کہ ایام حج کو مدینے میں ان کے لیے ایام عید بنادیا۔ آپؐ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ 9ذی الحج (یعنی یوم الحج) کی صبح سے جب کہ حاجی عرفات کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہ ہر نماز کے بعد اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ کا ورد شروع کریں اور 13ذی الحج (جب تک حجاج منیٰ میں ایام تشریق گزارتے ہیں) اس کا سلسلے جاری رکھیں۔ نیز 10ذی الحجہ کو جب کہ حجاج مزدلفہ سے منیٰ کی طرف پلٹتے ہیں اور قربانی اور طواف کی سعادت حاصل کرتے ہیں، وہ بھی دوگانہ نماز ادا کر کے قربانی کریں۔
قربانی کا جو طریقہ نبی اکرمؐ نے سکھایا وہ یہ تھاکہ عید الاضحی کی دوگانہ نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کی جائے اور جانور ذبح کرتے وقت یہ کہا جائے:
’’مَیں نے یک سو ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور جینا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔ خدایا یہ تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔
ان الفاظ میں وہ تمام وجوہ شامل ہیں جن کی بنیاد پر قرآن مجید میں قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں اس بات کا اعلان ہے کہ دیوتاؤں کے لیے قربانیاں کرنے والے مشرکین کے برعکس ہم صرف خدائے وحدہ لاشریک کے لیے قربانی کی عبادت بجا لارہے ہیں۔ ان میں اس بات کا اعلان بھی ہے کہ اپنے پیدا کیے ہوئے جانوروں سے فائدہ اٹھانے کی جو نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بخشی ہے اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے یہ نذر ہم اس کے حضور پیش کر رہے ہیں۔ ان میں یہ اعلان بھی ہے کہ اس مال کے اصل مالک ہم نہیں ہیں بلکہ یہ جانور اللہ کی مخلوق ہیں جن پر اس نے ہمیں تصرف کا اختیار بخشا ہے اور اس کی کبریائی کے اعتراف میں یہ نذرانہ ہم اس کے حضور پیش کر رہے ہیں۔ اس میں یہ بھی اظہار ہے کہ جس طرح ہمیں حکم دیا گیا تھا ٹھیک اسی طرح ہم ابھی صرف اللہ کے لیے نماز ادا کر کے آئے ہیں اور اب خالصتاً اسی کے لیے قربانی کر رہے ہیں۔ پھر ان سب سے بڑھ کر ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ عہد وپیمان بھی ہے کہ ہماری نماز اور قربانی ہی نہیں ہمارا مرنا اور جینا بھی صرف اسی کی ذات پاک کے لیے ہے اور یہ عہد و پیمان اس تاریخی دن میں کیا جاتا ہے جس دن اللہ کے دو بندوں نے اپنے عمل سے بتایا تھا کہ جینا اور مرنا اللہ کے لیے ہونے کا مطلب کیا ہے۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں پر جو اقتدار اور تصرف کا اختیار بخشا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بالادستی اور حاکمیت و مالکیت کا اعتراف کرتا رہے تاکہ اسے کبھی یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ سب کچھ میرا ہے اور میں ہی اس کاخود مختار ہوں۔ اس بالاتری کے اعتراف کی مختلف شکلیں اللہ کے مختلف عطیوں کے معاملے میں رکھی گئی ہیں۔ جانوروں کے معاملے میں اس کی شکل یہ ہے کہ انہیں اللہ کے نام پر قربان کیا جائے۔ سورہ حج ہی میں فرمایا کہ ’’اسی طرح اللہ نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اس ہدایت پر جو اس نے تمہیں بخشی‘‘۔ یہی تین وجوہ ہیں جن کی بنا پر قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیشہ سے تمام شرائع الٰہیہ میں تمام امتوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے: ’’اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے تمہیں بخشے ہیں‘‘۔ اور یہ طریقہ جس طرح دوسری امتوں کے لیے تھا اسی طرح شریعت محمدی میں امت محمدؐ کے لیے بھی مقرر کیا گیا ہے:’’اے محمدؐ، کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں سرِ اطاعت جھکانے والا ہوں‘‘۔ ’’فصل لربک وانحر‘‘ (پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر‘‘۔
یہ حکم عام تھا جو قربانی کے لیے قرآن میں دیا گیا۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ قربانی کب کی جائے، کہاں کی جائے، کس پر واجب ہے اور اس حکم پر عمل درآمد کرنے کی دوسری تفصیلات کیا ہیں۔ ان چیزوں کو بیان کرنے اور ان پر عمل کر کے بتانے کا کام اللہ نے اپنے رسولؐ پر چھوڑ دیا کیوں کہ رسولؐ اس نے بلا ضرورت نہیں بھیجا تھا۔ کتاب کے ساتھ رسولؐ بھیجنے کی غرض یہی تھی کہ وہ لوگوں کو کتاب کے مقصد و منشا کے مطابق کام کرنا سکھائے۔
نبیؐ نے یہ بات لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑ دی کہ فرداً فرداً جس مسلمان کا جب جی چاہے اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی جانور قربان کر دے، بلکہ آپؐ نے تمام امت کے لیے تین دن مقرر فرما دیے تاکہ تمام دنیا کے مسلمان ہر سال انہی خاص دنوں میں اپنی اپنی قربانیاں ادا کریں۔