مزید خبریں

توبہ کی حقیقت

توبہ کے معنی عود و رجوع یعنی لوٹنا اور واپس ہونا ہے۔ جب اس لفظ کی نسبت کسی بندے کی طرف ہوتی ہے، تو اس وقت اس کے معنی اپنے گناہ وخطا کو چھوڑ دینا اور اپنے کیے ہوئے پر نادم وپشیماں ہونا ہوتا ہے۔ توبہ کی اصطلاحی تعریف کے حوالے سے علامہ آلوسیؒ (1854-1802) فرماتے ہیں: ’’بندہ اپنے گناہوں سے باز آجائے اور اپنے کیے ہوئے پر نادم وپشیماں ہو اور گناہ سے یہ توبہ اس وجہ سے ہو کہ وہ گناہ ہے؛ اس لیے نہ ہو کہ اس میں کوئی جانی ومالی نقصان ہے اور یہ عزم وارادہ کرے کہ حتی المقدور دوبارہ یہ گناہ نہیں کرے گا‘‘۔ (روح المعانی: 28/158)
توبہ کی شرطیں
توبہ کے لیے کچھ شرطیں بھی ہیں۔ اگر توبہ کرنے والا ان شرائط کو ملحوظ خاطر رکھ کر توبہ کرتا ہے تو اْمید ہے کہ وہ توبہ اس کے لیے مفید اور نافع ہوگی۔ اگر توبہ کرنے والا ان شرائط کا لحاظ نہیں کرتا ہے، تو ممکن ہے کہ وہ توبہ مفید اور ثمر آور نہ ہو۔ توبہ کی قبولیت کے لیے کتابوں میں متعدد شرطیں مذکور ہیں، مگر اس حوالے سے سیدنا علیؓ نے جو چھ شرطیں بیان کی ہیں، وہ نہایت ہی جامع ہیں اور سب کے نزدیک مسلم ہیں۔ وہ شرطیں یہ ہیں: 1۔اپنے گزشتہ برے عمل پر ندامت، 2۔جو فرائض و واجبات اللہ تعالیٰ کے چھوٹے ہیں، ان کی قضا، 3۔کسی کا مال وغیرہ ظلماً لیا تھا، تو اس کی واپسی، 4۔کسی کو ہاتھ یا زبان سے ستایا اور تکلیف پہنچائی تھی، تو اس سے معافی،5۔آئندہ اس گناہ کے پاس نہ جانے کا پختہ عزم وارادہ اور 6۔یہ کہ جس طرح اس نے اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھا ہے، اب وہ اطاعت کرتے ہوئے دیکھ لے۔ (معارف القرآن:8/506)
تنبیہ:عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کے بعد توبہ کرلینے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے، مگر یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر کسی نے کسی بندy کا حق مار رکھا ہے یا کسی کا حق زور زبردستی چھین لیا ہے، تو اس صورت میں صرف توبہ اور ندامت وپشیمانی کافی نہیں ہوگی، بلکہ جس بندy کا حق مارا گیا ہے یا چھینا گیا ہے، اس کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے، پھر جاکر توبہ قبول ہوگی۔
موسوعہ فقہیہ میں ہے:
توبہ بمعنی گزشتہ اعمال پر ندامت اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم وارادہ، حقوق العباد میں سے کسی کا حق ساقط کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگی؛ چناں چہ اگر کوئی کسی کا مال چرائے یا اس کو غصب کرلے یا کسی اور طرح سے برا سلوک کرے تو محض ندامت وپشیمانی اور گناہوں سے رک جانے اور دوبارہ نہ کرنے کے عزم سے ان مسائل سے وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتا، بلکہ حق کا ادا کرنا ضروری ہے، یہ فقہا کے یہاں متفق علیہ مسئلہ ہے۔ (موسوعہ فقہیہ:14/157)