مزید خبریں

آئی ایم ایف نے 440 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کا کہا ہے ، اصل بجٹ اب آئے گا ، شوکت ترین

اسلام آباد(خبر ایجنسیاں) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سینیٹر شوکت ترین نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حکومت کو 440 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کا کہا ہے، اصل بجٹ اب آئے گا۔سینیٹ اجلاس میں شوکت ترین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک اور بجٹ آرہا ہے، آئی ایم ایف نے انہیں کہا ہے کہ 440 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے ہیں، وہ اصل بجٹ ہو گا، سینیٹ نے خانہ پوری بجٹ پر بحث کی ہے۔شوکت ترین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے وقت میں تو لوڈ شیڈنگ نہیں تھی۔ سابق وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ پہلے آئی ایم ایف کا خانہ پْری بجٹ آیا، اب پتہ چلا ہے عالمی مالیاتی ادارے نے ان سے مزید ٹیکسز لگانے کاکہا ہے اور ایک اور بجٹ آرہا ہے، اب تک جو باتیں ہوئی ہیں وہ تو خانہ پْری بجٹ پر ہوئی ہیں، اگر بحث ختم کر دی جائے تو 28 اور29 کو جو پارلیمنٹ میں لایا جائے گا وہ کیا ہوگا؟۔ شوکت ترین نے کہا کہ بجٹ پر فضول تقریریں کی جا رہی ہیں لیکن کسی کو معلوم تک نہیں کہ انکے ساتھ ہو کیا گیا ہے ،بجٹ میں جو رقم رکھی گئی وہ کہا ں سے پوری کی جائے گی،سات سو ارب روپے کی سبسڈی رکھی گئی ،مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کہاں سے پوری کی جائے گی،میری معلومات کے مطابق 440ارب روپے کے مزید ٹیکس لگائے جا رہے ہیں،آئی ایم ایف نے ان سے مزید شرائط رکھ لی ہیں،شیری رحمن کی رنگین قسم کی تقریر تھی ،چند دن قبل سروے رپورٹ اسی حکومت نے جاری کی اور آج انکے خلاف تقریر کی جا رہی ہے ،نالائق لوگ ہیں ان سے حکومت سنبھل نہیں رہی تو ہم پر گلا کر رہے ہیں،لوڈشیڈنگ اچانک کیوں بڑھ گئی،گیلانی صاحب کی عزت کرتا ہوں ،ستر نہیں 78بلین تھی،ہم بہترین معیشت دیکر گئے ۔قبل ازیںپاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ مشکل حالا ت میں اچھا اور متوازن بجٹ ہے ، ہمیشہ آنے والی حکومت جانے والی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے اور یہ حقیقت ہے ،لیکن آج جو تنقید کی جا رہی ہے وہ بالکل درست ہے،کرنٹ اکائونٹ خسارہ پندرہ ارب سے تجاوز کر گیا۔جمعرات کو ایوان بالامیں بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر،سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ قرضوں کی بات کی جائے تو گزشتہ دور میں بیس ہزار ارب قرضہ لیا گیا ،جبکہ اس سے قبل سابق حکومتوں میں پچیس ہزار ارب قرضہ تھا۔سینیٹر شیری رحمن نے بجٹ تقریر پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بجٹ پر مہنگائی پر کون سی حکومت اپنے اوپر ٹھپہ لگوائے گی کہ آئی ایم ایف بجٹ پی ٹی آئی کا تحفہ ہے ،سابق حکومت نے جو ملک کو نقصان پہنچایا ہے وہ ستر سال سے نہیں پہنچایا گیا تھا،ٹماٹر ،آلو کا ہمیں تو خیال ہے لیکن سابق حکومت کا لیڈر کہا کرتا تھامجھے آلو پیاز سے کوئی سروکار نہیں ،شیری رحمن نے برملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ مہنگائی کی قیمت ہم نے تو اداکرنی ہے لیکن اپ کو بھی حساب دینا پڑے گا،جب پتہ تھا کہ حکومت جا رہی تھی تو بارودی سرنگیں بچھا دیں،پھر جلسے جلسے کھیلیں گے اور عوام کو بے وقوف بنائیں گے۔قائد ایوان سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اتحادی حکومت کے پاس دوراستہ تھے ایک کہ اپنی سیاست کے لیے فیصلے کرتے یا ریاست کے لیے کرتے ،ہم نے ریاست کو چن لیا،سابق حکومت میں کتنی بار سیکرٹری ،چیئرمین ایف بی آر بدلے ہیں،سابق وزیر خزانہ بڑی دلچسپی لیکر بجٹ سنا،اس دران کورم کی نشاندہی کی گئی تو قاید ایوان نے کہا کہ سننے کا حوصلہ نہ ہو تو پھر کورم کی نشاندہی کی جاتی ہے ،اس دوران قائد ایوان نے کہا کہ معاہدہ ریاست کا ہوتا ہے ،عمران یا شہباز کا نہیں ہوتا،سابق دور حکومت کے کانٹے ہم چن رہے ہیں ،اور انشاء اللہ مزید بھی راستہ صاف کریں گے ۔ اس موقع پر بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ہم نے کمیٹی کے ذریعہ کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخوائوں میں پندرہ فیصد منظوری کے لیے سینیٹ نے متفقہ طور پرسفارشات منظور کر لی ہیں ،اور اس دوران تین بار کورم کی نشاندہی ہوئی تاہم کورم پورا ہوا،اس پر سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ اب بھی تین بار کورم کی نشاندہی ہوئی ،لیکن گول نہ کر سکے ، صرف کھیل ہی رہے تھے،ستر سال تک ہم نے جدو جہد کی ہے کہ اسٹبلشمنٹ سیاست میں دخل انداز ی نہ کرے ،اور اب الحمداللہ ہم کامیاب ہو گئے ہیں اور انکی مداخلت ختم ہو گئی ۔وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے ایوان بالا میں بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے بتایا کہ بجٹ پر سفارشات پیش کرنے پر ایوان بالا اور قائمہ کمیٹی کے اراکین کی شکرگزار ہوں اانہوںنے کہاکہ قائمہ کمیٹی کی تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے گاانہوں نے کہاکہ ایوان اور قوم کے سامنے حقائق رکھنا ضروری ہے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم4کھرب کا گردشی قرضہ چھوڑ کر گئے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ سابق حکومت سبسڈی کے ایک ایسے ٹریپ میں گرا کر گئے ہیں جس سے نکلنا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ کرنٹ اکائو نٹ خسارہ بھی زیادہ ہے اور ہماری کریڈٹ ریٹنگ کم کی گئی اسی طرح ملک میں اشیائے خورد ونوش کے ذخائر کم ہوگئے ۔انہوںنے کہاکہ عوام کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکیں ہم نے مشکل حالات میں بجٹ بنایا ہے اپوزیشن بار بار کہتی ہے کہ یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے کوئی بھی ذمہ دار ممالک عالمی معاہدوں سے پیچھے نہیں ہٹتاہے کیا یہ کرکٹ کا میچ ہے جو خلا سابق حکومت چھوڑ کر گئی ہے اس کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔علاوہ ازیںایوان بالا میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیلیے مشترکہ اجلاس بلانے اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کردیا۔ سینیٹ اجلاس کے دوران سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات اور اقدامات کے بارے میں کہا گیا کہ جب یہ کسی انجام تک پہنچ جائیں گے تو ہم اس کو پارلیمنٹ کے سامنے رکھ دیں گے ۔انہوں نے کہاکہ کیا یہ پارلیمنٹ انگوٹھا چھاپ ہے کیا یہ پارلیمنٹ ربڑ سٹیمپ ہے کہ یہاں سے اسٹیمپ لگانی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اتنے اہم موقع پر پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے انہوں نے کہاکہ کل علی وزیر کے حوالے سے تصویر آئی ہے کہ اس کو بارش میں بٹھایا گیا ہے اس کے حلقے کی حق تلفی ہورہی ہے دو دن سے اس کو ہسپتال میں رکھا ہے اس نے کہاکہ مجھ پر دو حملے ہوئے ہیں ایک جانب علی وزیر منتخب ممبر قومی اسمبلی کی تذلیل کی جارہی ہے یہ قبائلی عوام کو کیا پیغام دیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہاکہ رائو انوار کو تو وی وی آئی پی پروٹوکول دیا جارہا ہے اور قومی میڈیا پر انٹریوز دے رہا ہے جبکہ منتخب ایم این اے کو باندھ کر بارش میں بٹھایا ہوا ہے، بتایا جائے کہ ان کی یہ تذلیل کیوں ہورہی ہے یہ منتخب حلقے اور پختونوں کی تذلیل ہے ۔انہوں نے اس کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ اس حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں اجلاس ہونا چاہیے ۔سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہاکہ یہ درست ہے کہ پارلیمان کو ربڑ ا سٹیمپ کی طرح استعمال کیا جارہا ہے اگر ٹی ٹی پی سے مذاکرات مکمل ہونے کے بعد معاہدہ ایوان کے سامنے لایا جائے تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے ۔انہوں نے اس حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا۔دوسری جانب ایوان بالا نے سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی مالیاتی بل 2022 کیلیے سفارشات کی منظوری دیدی ہے جو قومی اسمبلی کو بھجوا دی گئی ہیں جن میں سفارش کی گئی ہے کہ ادویات کے خام مال کی خریداری پر 17 فیصد سیلز ٹیکس واپس لیا جائے، آئی ٹی کے شعبے میں کام کرنے والے کاروباری افراد اور ٹیکس دہندگان کو قرضوں کی سہولت دی جائے، گریڈ 1 سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کی نسبت زیادہ ہونا چاہیے۔ جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے سفارشات ایوان میں پیش کیں۔