مزید خبریں

خاندان کا ادارہ دین سے دوری اور مادیت پسندی کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہے

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) خاندان کو سماجی خوبیاں پروان چڑھانے کی درسگاہ قرار دیا جاتا ہے مگر اب یہ تنزلی اور بحران کا شکار ہوتا جارہا ہے جس کی وجوہات میں سر فہرست دین سے دوری اور مادیت پسندی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے تناظر میں خاندان کے افراد مل کر ہی ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں، اسی لیے اسلام نے اس ادارے کو مستحکم رکھنے اور خاندان کے تمام افراد میں احساس ذمے داری پیدا کرنے کیلیے کچھ قوانین وضع کیے ہیں اور خاندان کے افراد کو حقوق و فرائض کے ذریعے ایسے بندھن میں باندھ دیا جس کی کہیں مثال نہیں ملتی، اس سے آپس میں پیار و محبت، ادب و احترام اور خلوص و ایثار کاجذبہ پروان چڑھتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اسلامیات ڈاکٹر گلناز نعیم، وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ سوشل ورک کی اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر منیرہ ہو اور شعبہ تعلیم و تربیت سے 17 سال سے وابستہ اور لیڈ کی ڈائریکٹر کنول فواد نے نمائندہ جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’خاندان کا ادارہ بحران کا شکار کیوں ہے‘‘۔ بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اسلامیات ڈاکٹر گلناز نعیم کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ اسلامی معاشرے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر آہستہ آہستہ تنزلی اور بحران کا شکار ہوتا جارہا ہے، ان وجوہات میں سرفہرست دین سے دوری ہے۔ ایک صحابیؓ نے رسول اکرمؐ سے سوال کیا کہ ’اگر ہم اپنے فرائض ادا کر رہے ہوں اور ہمیں ہمارے حقوق نہ ملیں تو ہم کیا کریں؟ پیغمبر اسلامؐ کے جواب نے رہتی دنیا تک انہیں آپس میں جڑے رہنے کا درس دیتے ہوئے فرمایا (مفہوم) ’’ تم اپنے فرائض میں غفلت نہ برتنا اور اپنے حقوق کا سوال صرف اللہ سے کرنا‘‘۔ لیکن دین سے دوری نے مادیت پسندی، عیش و عشرت اور سہل پسندی کی ایسی چمک دمک دکھائی کہ اس مرعوبیت کی وجہ سے خاندان کے مرد حضرات پیسہ کمانے کی دھن میں مگن کبھی وطن اور اہل خانہ سے دور چلے جاتے ہیں اور کبھی ایک ساتھ 2، 2 ملازمتیں کر رہے ہوتے ہیں اور بچوں کی خاطر خواہ تربیت نہیں کر پاتے جبکہ اس بات کی تنبیہہ کرتے ہوئے اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ (مفہوم) ’’اے ایمان والوں اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں‘‘۔ یہ مسئلہ ان خاندانوں میں اور بھی پریشان کن ہے جہاں اپنا اور اپنے خاندان کا طرز زندگی بہتر بنانے کیلیے خواتین بھی ملازمت پیشہ ہیں۔ والدین نے اولاد کو مادی زندگی کی آسائشیں تو فراہم کر دیں لیکن اخلاقی اور روحانی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ فراغت کا وہ تمام وقت جو پہلے خاندان کے بچے بڑوں کے ساتھ گزارتے تھے اور ان سے اچھے برے کی تمیز، رشتوں کا تقدس، ادب و احترام وغیرہ سیکھتے تھے، اب وہ سارا وقت موبائل فون کی نذر ہوگیا۔ اگر کبھی ساتھ بیٹھنے کا وقت مل بھی جائے تو اہل خانہ ایک کمرے میں ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بے خبر ہوتے ہیں۔ یعنی جغرافیائی لحاظ سے ایک مقام پر ہوتے ہوئے بھی سماجی فاصلے برقرار رہتے ہیں۔ آرام دہ اور عیش و عشرت کی زندگی کے حصول نے بھی خاندان کے مابین اچھے اور برے کی تمیز ختم کردی۔ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہی کہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ بس ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں مگن ہیں۔ ساری کوشش اسی میں صرف ہوجاتی ہے کہ ہمارا طرز زندگی اپنے قرب و جوار کے خاندانوں سے زیادہ بہتر نظر آئے۔ خود کو برتر اور دوسرے کو کمتر کرنے کی جستجو مسلسل جاری ہے۔ نتیجتاً خاندانی اقدار کی وقعت ختم ہوتی جا رہی ہے اور انسان ارسطو کے مطابق سماجی حیوان ہونے والی صفت کو بھی فراموش کرتا جارہا ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ سوشل ورک کی اسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر منیرہ ہو کا کہنا تھا کہ خاندان معاشرے میں ایک ابتدائی گروہ ہے جس میں انسان قدرتی طور پر اس گروپ کا حصہ بناتا ہے، خاندان انسانی بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کا ایک ذمے دار ادارہ ہے لیکن معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے ایک بنیادی مضبوط ادارے کو بھی مختلف مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ بنیادی وجوہات خاندانی انتشار کی بنیادی وجوہات میں سب سے اہم عنصر انسانی قوت برداشت کی کمی، خاندانی انتشار کی وجہ سے باہمی افہام و تفہیم، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے والا تعلق اب کم ہوتا جارہا ہے۔ انسانی تربیت کے طریقہ کار میں تبدیلی کا عمل انسانی حقوق و فرائض کی جنگ، ضروریات زندگی کا بڑھ جانا، ٹیکنالوجی کا بے جا استعمال، انسانی تعلقات اور احساسات میں کمی، مذہب سے دوری، اجتماعیت کی جگہ ذاتیات کی اہمیت کا بڑھ جانا اور تفریحی سہولیات کا فقدان شامل ہے۔ شعبہ تعلیم و تربیت سے 17 سال سے وابستہ اور لیڈ کی ڈائریکٹر کنول فواد کا کہنا تھا کہ خاندان کو سماجی خوبیاں پروان چڑھانے کی درسگاہ قرار دیا جاتا ہے، ایک بچے کا خاندان اس کیلیے ایک چھوٹے سے سماج کی طرح ہوتا ہے جہاں وہ ہمدردی، رحم دلی، سخاوت، حب الوطنی، وفاداری اور معافی جیسی اقدار کا مشاہدہ کرتا ہے اور یوں یہ تمام اقدار اس کی شخصیت کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں، ایک خاندان بظاہر کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہوتا، لیکن بہت سارے خاندان مل کر سماج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب خاندان کے درمیان ایک دوسرے کی فکر، احساس ذمے داری اور خلوص جیسے رویے پیدا ہوتے ہیں تب ہی ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ موجودہ دور میں زندگی بہت تیزی سے تبدیل ہوچکی ہے اور نئی نئی ٹیکنالوجی، نئے کلچر، لوگوں کی ترجیحات اور رابطے کے ذرائع میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے، ایسے میں ایک خاندان کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ایک ایسا خاندان جہاں پرانی اقدار اور روایات کو جدیدیت کے ساتھ قائم رکھا جائے، جہاں افراد کی بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ انہیں دنیا کی طرف ان کی ذمے داری سے آگاہی دی جائے اور ایسے مواقع فراہم کیے جائیں جہاں وہ ایک مثبت کردار ادا کرسکیں۔ آج کی گہما گہمی میں جہاں والدین کی ایک بڑی فکر ذریعہ معاش ہے اور بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے ماں باپ دونوں سرگرم عمل ہیں وہاں والدین کے ساتھ ساتھ خاندان میں شامل دیگر افراد کی ذمے داری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آپسی نااتفاقی اور ناچاقی نہ صرف بچوں کے معصوم ذہنوں پر اثر انداز ہورہی ہے بلکہ اس کا اثر بچوں کے روزمرہ معاملات میں بھی نظر آرہا ہے۔ والدین اور بچوں کے درمیان رابطے کی کمی کی وجہ سے ایک دوسرے پر اعتبار اور اعتماد کا فقدان ہوتا جارہا ہے۔ جس کا فائدہ معاشرے میں موجود شرپسند عناصر بخوبی اٹھارہے ہیں، آج کا بچہ موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر طرح کے لوگوں سے براہ راست رابطے میں ہے جو معصوم ذہنوں کو گندا کر رہے ہیں۔ بچہ اپنے ارد گرد موجود باتوں کا بہت جلد اثر قبول کرتا ہے، خواہ وہ مثبت ہوں یا منفی اور ایسے میں صحیح غلط کا فرق اور اچھے برے رویے سے نبردآزما ہونے کیلیے والدین کا بچوں کے ساتھ صحت مند تعلق اہم ہے۔ ورنہ یہ بچے ڈپریشن، فسٹریشن اور انزائٹی کا شکار ہوکر نہ صرف اپنے مستقبل اور اپنی زندگیوں کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ اپنے اردگرد موجود افراد کیلیے بھی تکلیف کا باعث بن رہے ہیں۔ اور یوں ہمیں معاشرے میں الجھے دماغ، تھکے ذہن، کمزور اعصاب اور احساسات سے عاری افراد نظر آرہے ہیں۔