مزید خبریں

مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی کا فاٹا کی صورتحال پر اظہار تشویش

لاہور(نمائندہ جسارت) صوبہ خیبر پختونخوا سے ملحقہ قبائلی ایجنسیز کو جوکہ جماعت اسلامی کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں صوبے کے ساتھ ضم کیے گئے۔ اس انضمام سے قبائل میں ایف سی آر کی ظالمانہ قوانین کا خاتمہ ہوا۔ ان قبائلی علاقوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور امید پیدا ہوگئی کہ اب آئین اور قانون کے مطابق یہاں ترقی کا دور شروع ہوگا جبکہ ترقی مخالف عناصر نے ان تمام مراعات اور قوانین کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کردیں ، جو سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کے ذریعے اعلان کیے گئے تھے۔ جس میں ان اضلاع کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک ہزار ارب روپے 10 سال میں دینے کا وعدہ کیاتھا۔ این ایف سی ایوارڈ میں 3 فیصد حصہ ، 5 سال کے لیے ٹیکس فری زون کے ساتھ کالجز، یونیورسٹیز، پارکس اور 3 ہزار افراد کے لیے فورسز میں بھرتیوں کاایک بڑا پیکیج بھی دیا گیا تھا۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس چل رہاہے اور گزشتہ 5 سال میں اس طرف کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اب پھر سے دہشت گردی کے عناصر سر اٹھا رہے ہیںاورتیزی کے ساتھ علاقے کے امن کو تباہ برباد کررہے ہیں ۔ جس کے حوالے سے حکومت مجرمانہ غفلت برت رہی ہے اور معلوم ہو رہاہے کہ کہیں دوبارہ سے ان کو علاقے کا امن خراب کرنے دیاجارہا ہے۔ این اے کی نشستوں میں کمی کی گئی ہے جوکہ سرتاج عزیز کمیٹی کے مطابق 10 سال میں کوئی مراعات واپس نہیں لی جاسکتیں ۔ تعلیم کی مد میں جو مراعات اور کوٹہ سسٹم قبائلی علاقوں کے لیے مختص تھا وہ بھی ختم کیا جارہاہے۔ صوبائی حلقوں کی حد بندیاں ، خود ساختہ طریقوں سے مسلط کی جارہی ہے۔ جس کا زمینی اور جغرافیائی صورت حال اور حد بندی سے تضاد ہے۔ ان تمام اوچھے ہتھکنڈوں سے قبائلیوں کو دوبارہ ایف سی آر کے ظالمانہ نظام کی طرف لوٹایاجارہاہے اور انضمام کے بعد جو حیثیت صوبے کے دوسرے اضلاع کی ہے اس طرز پر کسی بھی قسم کی بتدریج تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی ۔ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس اس قرار داد کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ۱۔ علاقے کے امن کو ہر صورت اور ہر قیمت پربرقرار رکھاجائے۔ سول لشکروںاور امن تنظیموں سے امن قائم کرنے سے گریز کیاجائے اور امن حکومتی اداروں سے قائم کریں۔۲۔ تمام قبائلی علاقوں میں غیر اعلانیہ ٹیکسز کو ختم کیا جائے اور مزید 10سال کے لیے ٹیکس فری زون قرار دیاجائے تاکہ علاقے میں کاروبار اور انڈسٹریز کو فروغ دیاجاسکے۔ ۳۔ این اے کی نشستوں میں کمی کے فیصلے کو واپس لیاجائے اور پرانی نشستیں بحال کی جائیں۔ ۴۔ صوبائی حلقوں کی حد بندیوں میں خود ساختہ تبدیلیوں کو واپس لیاجائے اور علاقے کی روایات ،قوم کی شناخت اورپہلے سے قائم حد بندیوں کی بنیاد پر حلقہ جات قائم کیے جائیں۔ ۵۔ تمام تر تعلیمی وظائف اور پیشہ ورانہ کالجز کو ٹہ سسٹم بحال کیاجائے اور اس میں مزید اضافہ کیاجائے تاکہ قبائل کے غریب اور ذہین طلبہ کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر آسکیں۔ ۶۔ ایک ہزار ارب روپے کی اعلان کردہ رقم کی سالانہ اقساط فوری جاری کی جائیں اور اس کو کسی بھی صورت سیکورٹی کی مد میں ہڑپ کرکے کرپشن کی نذر نہ جائے۔ ۷۔ این ایف سی ایوارڈ میں 3 فیصدحصہ دینے کا وعدہ پورا کیاجائے۔