مزید خبریں

سندھ حکومت انتخابی عملے کے زریعے بد عنوانیوں کے نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے،حافظ نعیم الرحمن

کراچی (اسٹاف رپورٹر) امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے انتخابی عملے کے ذریعے پورا انتخابی عمل یرغمال بنالیا ہے اور کراچی جیسے شہر میں وڈیرہ شاہی فاشزم اور آمرانہ ہتھکنڈے ریاستی وسائل کے ذریعے امیدواروں کو اغواء، دباؤ کے ذریعے دستبرداری پر مجبور کیا گیا ہے جبکہ انتخابی عملے میں پیپلز پارٹی کے ورکرز کو بھرتی کرکے شہری امیدواروں کو بھی نااہل کرایا جارہا ہے، پیپلزپارٹی کے فاشزم نے انتخابی عمل میں ایم کیو ایم کے فاشزم اور دھاندلی کے ہتھکنڈوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے، ایم کیوا یم اس پورے انتخابی عمل میں شریک کار ہے اور 25کروڑ فی سیٹ پر کراچی کا سودا کررہی ہے، بلدیاتی انتخابات ملتوی اور پورے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ریٹرننگ افسران کی صورت میں پارٹی ورکرز بٹھادیے گئے ہیں، امیدواروں کے کاغذات نامزدگی وجہ بتائے بغیر غیر قانونی طور پر مسترد کیے جارہے ہیں اسکروٹنی کرانے کے باوجود غیر حاضر شمار کیا جارہا ہے، اپیلوں کا حق نہیں دیا جارہا،ووٹرلسٹیں فراہم نہیں کی جارہیں اور 2,2 ووٹر لسٹیں چل رہی ہیں اور حتمی و غیر حتمی ووٹر لسٹوں کے نام پر شہریوں کو الجھایا جارہا ہے، الیکشن کمیشن اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کررہا اور اس پر سندھ حکومت کی چھاپ لگی نظر آرہی ہے، انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے عمل میں سندھ حکومت پوری طرح شریک ہے اور کراچی میں بھی اپنی وڈیرہ شاہی مسلط کرنا چاہتی ہے،سندھ حکومت نہ صرف بلدیاتی انتخابات نہیں کراناچاہتی بلکہ آئین کے آرٹیکل 140-Aکے تحت بلدیاتی اداروں کو اختیارات بھی منتقل کرنے پر تیار نہیں۔ہمارا مطالبہ ہے کہ ریٹرننگ افسران کے متعصبانہ رویے اور طرز عمل کو روکا جائے،آر اوز کی صورت میں جو پارٹی ورکرز لاکر بٹھادیئے گئے ہیں ان کو ہٹایا جائے۔ الیکشن کمیشن ووٹ لسٹیں فراہم کرے اور بلدیاتی انتخابات اپنے مقررہ وقت پر 24 جولائی کو ہی کرائے جائیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روزادارہ نورحق میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر نائب امراء کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، راجا عارف سلطان،پبلک ایڈ کمیٹی کراچی کے صدر سیف الدین ایڈوکیٹ بھی موجود تھے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ شہر میں ایک اور تماشہ کیا گیا ہے کہ 27جولائی کو این اے 245میں ضمنی انتخابات کا اعلان کردیا گیا ہے جبکہ24 جولائی کو بلدیاتی انتخابات ہونے ہیں، اب اس دوران دو دو انتخابی مہم کس طرح چلیں گی۔ انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بتائے کہ آئین کی آرٹیکل 140 A اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق اب بلدیاتی اختیارات کا قانون کیوں نہیں پاس کیاجارہاجبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی بھی اپنا اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کررہی یہ کہتے ہیں کہ الیکشن اس لیے نہیں کرانا چاہتے کہ بلدیا تی اختیارات کا مسئلہ ہے جبکہ دوسری طرف اختیارات دینا نہیں چاہتے یہ تمام جماعتیں مل کر نہ بلدیاتی انتخابات کرانا چاہتی ہیں اور نہ ان کوکوئی غرض ہے یہاں بااختیار بلدیہ کا نظام بنے ہم اس پورے طرزعمل کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ فور ی طور پر 140-Aکے مطابق بلدیاتی اختیارات کو منتقل کیا جائے۔انہوں نے کہاکہ تعصب اور سیاسی بنیاد پر پارٹی ورکرز کو آر اوز بنادیا گیا ہے۔ ابراہیم حیدری ٹاؤن میں بدترین غنڈہ گردی اور وڈیرہ شاہی ہورہی ہے وہاں کے آر او مراد علی عباسی نے زبردستی امیدواروں کے فارمز کومسترد کردیا اور اپیل کرنے کا حق بھی نہیں دے رہے، چنیسر ٹاؤن میں یوسی ایک سے یوسی 4 تک میں آر اویار محمد بلیدی پارٹی ورکرکے طور پر کام کررہے ہیں بغیر کسی وجہ کے فارمز کو مسترد کررہے ہیں،منگھو پیر میں آراوغلام دستگیر اوراسی طرح گڈاپ ٹاؤن میں بھی فارمز مسترد کیے جارہے ہیں اور پورا الیکشن کا عمل اس وقت بدترین صورتحال سے دوچار ہے لوگوں کو ووٹر لسٹوں تک رسائی حاصل نہیں ہے ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں ووٹر لسٹیں دیں تاکہ ہم اپنی الیکشن مہم شروع کراسکے قانونی طور پر ووٹر لسٹوں کی ذمے داری الیکشن کمیشن کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایم کیو ایم ہمیشہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر کراچی کا بیڑہ غرق کرتی ہے ایم کیو ایم وفاقی حکومت کا حصہ ہے اوروزارتیں بھی لی ہوئی ہیں، جماعت اسلامی خاموش نہیں رہے گی ہم ان تمام جماعتوں کو بے نقاب کریں گے جو کراچی کے عوام پر شب خون ماررہے ہیں ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی نے آج تک کراچی کو کچھ نہیں دیا ہے،کوئی ایک پروجیکٹ مکمل نہیں کیا ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں جوابدہ ہیں کہ یہ کے فور منصوبہ مکمل کیوں نہیں کرسکیں یہ سب ملے ہوئے ہیں کراچی کے خلاف اور نہیں چاہتے کہ کراچی ترقی کرے پیپلز پارٹی اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈ کا حساب دے۔ کراچی میں نہ پا نی کا پروجیکٹ نہ سڑکیں نہ سرکلر ریلوے کراچی میں دو سو بسیں لاکر عوام کو بے وقوف بنارہے ہیں چھ سال میں اورنج لائن نہیں بناسکے اور نہ ٹرانسپورٹ کا کوئی بہتر نظام دے سکے۔