مزید خبریں

سکھر، سیپکو کا پورا سسٹم کرپشن کے باعث کھوکھلا ہونے کا انکشاف

سکھر(نمائندہ جسارت )سکھر الیکٹرک سپلائی پاور کمپنی (سیپکو)کا پورا ڈسٹری بیوشن سسٹم کرپشن ،ناقص پلاننگ،ہر سال مینٹیننس کے نام پر کروڑوں روپے ہڑپ کر جانے کی وجہ سے کھوکھلا ہو گیا ہے اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں پورا سسٹم بیٹھ جاتا ہے جس کی وجہ سے بجلی کی سپلائی گھنٹوں معطل رہتی ہے۔اتوار اور پیر کی درمیانہ شب بارہ بجے پندرہ منٹ کی تیز بارش اور ہوا نے سیپکو کے ڈسٹری بیوشن سسٹم کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں،بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ ہی سیپکو کے اعلیٰ افسران نے پورے اپر سندھ میں بجلی بند کرنے میں پھرتی دکھاتے ہوئے سارے سسٹم کے بوسیدہ اور فرسودہ ہونے کا اعلان کر دیا۔محکمہ موسمیات دو دن سے وارننگ دے رہا تھا کہ بالائی سندھ میں تیز ہواؤں کے ساتھ بارش ہوگی لیکن سیپکو کی بے حس،مال کمانے کی شوقین کرپٹ انتظامیہ نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیااور صارفین کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی کے لیے کچھ کرنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔اور معمول کے مطابق جیسے ہی بارش کا پہلا قطرہ گرا سکھر سمیت پورے بالائی سندھ کی بجلی بند کر دی گئی۔پندرہ منٹ کی بارش اور تیز ہوا نے سیپکو کے پورے ڈسٹری بیوشن سسٹم کو زمین بوس کر دیا اور سیپکو کے نااہل افسران اور اہلکار 13 گھنٹے بعد مرحلہ وار بجلی بحال کرسکے۔سیپکو اپنے ڈسٹری بیوشن سسٹم کو مینٹین رکھنے پر کروڑوں روپے مینٹیننس کا خرچا کاغذوں میں دکھاتا ہے لیکن اس کے ڈسٹری بیوشن سسٹم کی بوسیدگی اور فرسودگی میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہو رہا ہے۔تیز ہوا اور بارش سے درجنوں فیڈرز کا کئی کئی گھنٹوں کیلیے ٹرپ کر جانا اور تاروں اور پولوں کا گر جانا معمول بن گیا ہے،جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کروڑوں روپے مینٹیننس پر خرچ کیے جانے کے بجائے کرپٹ ترین انجینئرز کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔سیپکو کی نااہلی،نالائقی اور ناکامی عروج پر ہونے کی وجہ سے معمولی بارش بھی رحمت کے بجائے لوگوں کے لیے زحمت اور پریشانی کا سبب بن جاتی ہے۔سیپکو کے ڈسٹری بیوشن سسٹم کی سکھر شہر میں یہ حالت ہے کہ ہو پول پر تاروں کے الجھے ہوئے جال برسوں سے لٹک رہے ہیں لیکن انہیں سیدھا نہیں کیا جاتا کہ اس کی آڑ میں کرپٹ اہلکار بڑے پیمانے پر بجلی چوری کراتے ہیں۔اتوار اور پیر کی درمیانی شب کو بند کی گئی بجلی پیر کے روز ایک بجے دن 13 گھنٹے بعد بحال کی گئی۔اس دوران سیپکو کے بعض افسران بھنگ پی کر سوئے رہے اور کسی کو بھی عوام کی پریشانی اور اذیت کا احساس نہیں ہوا بلکہ افسران نے ٹیلیفون کال اٹینڈ کرنا چھوڑ دیا۔نیز شکایتی سینٹر کے اہلکاروں نے سوالات سے بچنے کیلیے ٹیلیفون کو آف کرکے رکھ دیا۔جو لوگ معلومات کے لیے شکایتی سینٹر پہنچے ان سے اسٹاف نے بدتمیزی کی اور صحیح معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیا،دلچسپ بات یہ ہے کہ سیپکو کے اعلیٰ افسران اور وی آئی پی ایریاز میں بجلی بلاتعطل سپلائی کی جاتی رہی۔13 گھنٹے بجلی بند رہنے سے لوگوں کے یو پی ایس تین گھنٹے بعد ہی جواب دے گئے۔اور بچوں،خواتین اور بزرگوں کو شدید گرمی اور حبس میں سخت ترین اذیت اور تکلیف کاسامناکرناپڑا۔ضلعی اورڈویژنل انتظامیہ اس دوران خواب خرگوش کے مزے لوٹنے میں مصروف رہی اور اسے عوام کی اذیت اور پریشانی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔سیپکو اس وقت کرپشن اور نااہلی کا گڑھ بنی ہوئی ہے۔بجلی چوری روکنے کے بجائے ہر تیسرے اہلکار نے پارٹیاں پکڑی ہوئی ہیں اور لاکھ سے دولاکھ روپے بجلی چوری کا سہولت کار بن کر کما رہا ہے۔بعض یونین اہلکاروں کا کام ہی یہ رہ گیا ہے کہ شہر میں بجلی چوری کرانے لاکھوں روپے ماہانہ بھتا وصول کریں اور افسران کو بلیک میل کریں۔انہوں نے سیپکو میں مونا پولی قائم کر رکھی ہے اور چیف تک ان سے ڈرتا ہے۔اور ان کی بداعمالیوں،بدعنوانیوں اور دو نمبریوں پرکوئی کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔سیپکو میں مال کمانے کی دوڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سینئر اور تجربے کار افسران کو کھڈے لائن لگا کر جونیئر اور کرپشن کے بادشاہوں کی شہرت رکھنے والوں کو ایس ڈی او اور ایل ایس کی پوسٹوں پر لگایا گیا ہے۔شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سیپکو کی موجودہ ٹیم کی نااہلی،ناکامی اور نالائقی کو دیکھتے ہوئے وفاقی وزیر بجلی خرم دستگیر خان سیپکو میں آپریشن کلین اپ کریںاور تمام افسران کو صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان ٹرانسفر کردیں اور اہل،دیانت دار اور تجربے کار افسران کی سیپکو میں تعیناتی کریں۔ان حلقوں نے سیپکو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کو بھی برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہاہے کہ سیپکو کے کسی سینئر،تجربے کار اور انتظامی صلاحیت رکھنے والے کو سی ای او لگایاجائے۔جسے اپنی نوکری کی پروا ہو اور وہ کنٹریکٹ پرنہ ہو۔