مزید خبریں

موجودہ حالات منفرد نوعیت کے ہیں ،اکثریتی جماعت پارلیمنٹ سے باہر جاچکی،چیف جسٹس

اسلام آباد(نمائندہ جسارت/آن لائن) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے تحقیقاتی اداروں میں حکومتی مداخلت سے متعلق لیے گئے از خود نوٹس کیس کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ پارلیمنٹ سے اکثریتی جماعت باہر جا چکی ہے ،قانون سازی میں کسی کو موقع سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے ہم اس پر نظر رکھیں گے ،یکطرفہ پارلیمان سے قانون سازی بھی قانونی تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے،کسی بھی تحقیقاتی ادارے،ایجنسی اور ریاستی ادارے کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنے دیں گے،موجودہ حالات منفرد نوعیت کے ہیں،ملک اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے،از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم قانون کی حاکمیت چاہتے ہیں،یہ سوال اہم ہے کہ مقتدر لوگوں نے ای سی ایل رولز میں ترمیم سے فائدہ اٹھایا،جو لوگ خود بینیفشریز ہیں وہ رولز میں ترمیم کیسے کر سکتے ہیں؟جن لوگوں کے مقدمات زیر التوا ہیں ان کے لیے مروجہ طریقہ کار پر سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے،موجودہ حالات منفرد نوعیت کے ہیں،پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت پارلیمنٹ سے باہر جاچکی ہے،ملک اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے،ایگزیکٹو کو اپنے اختیارات آئین و قانون کی روشنی میں استعمال کرنا ہونگے،کسی بھی تحقیقاتی ادارے،ایجنسی اور ریاستی ادارے کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنے دیں گے، یکطرفہ پارلیمان سے قانون سازی بھی قانونی تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے، قانون سازی میں کوئی موقع سے فائدہ نہ اٹھائے ہم اس پر نظر رکھیں گے ، کوئی ادارہ اپنی حد سے تجاوز نہ کرے،ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس سے حکومت کو مشکلات ہوں۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اٹارنی جنرل آفس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس ہوا،جبکہ ای سی ایل رولز سے متعلق کابینہ کمیٹی کا بھی گزشتہ روز اجلاس ہوا،اجلاس میں سپریم کورٹ کے تمام سوالات اور آبزرویشنز کو سامنے رکھا گیا، کابینہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں اٹارنی جنرل کو پیش ہونے کا کہا ہے، اٹارنی جنرل آفس نے ای سی ایل رولز میں ترمیم سے متعلق ایس او پیز بنا کر تمام اداروں کو بھجوا دی ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ رولز میں جو ترامیم ہوچکی ہے یا جو نام ای سی ایل سے نکل گئے انکا کیا ہوگا،جسٹس اعجاز الاحسن نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ کابینہ کمیٹی خود ہی قانون بناتی ہے اور خود ہی تشریح بھی کرتی ہے، بنے ہیں آپ ہی مدعی بھی منصب بھی، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں،عبوری انتظام میں بھی کرپشن ملزمان نیب کی اجازت سے ہی بیرون ملک جائیں گے،جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل بتایا کہ ای سی ایل سے نکالے گئے تمام ناموں کا الگ الگ کر کے دوبارہ سے جائزہ لیا جائے گا،نیب اور ایف آئی اے سے مشاورت کے بعد رولز بنائے جائیں گے،ای سی ایل میں شامل کسی وزیر نے ترمیم کی منظوری نہیں دی،جسٹس مظاہر نقوی نے اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ٹوکتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ کی بات ریکارڈ کے مطابق ہے؟سعد رفیق کی منظوری ریکارڈ کا حصہ ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سعد رفیق نے کابینہ کمیٹی میں نظرثانی درخواست دائر کی تھی،ترمیم کا براہ راست سعد رفیق کو کوئی فائدہ نہیں ہوا،سرکولیشن سمری میں رائے نہ بھی آئے تو اسے منظوری سمجھا جاتا ہے،مفتاح اسماعیل ای سی ایل ترمیم کے وقت بیرون ملک تھے،مفتاح اسماعیل نے ترمیم پر کوئی رائے نہیں دی تھی۔جسٹس منیب اختر نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ سمجھ نہیں آرہی حکومت کرنا کیا چاہتی ہے،لگتا ہے حکومت بہت کمزور وکٹ پر کھڑی ہے،واضح بات کے بجائے ہمیشہ ادھر ادھر کی سنائی جاتی ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ سسٹم چلنے دینے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا،جس نے سرکاری کام سے باہر جانا ہے اسے اجازت ہونی چاہیے۔ڈی جی ایف آئی اے نے اس موقع پر 42 ہائی پروفائل کیسز کا ڈیجیٹل ریکارڈ سیل لفافے میں عدالت عظمیٰ میں جمع کراتے ہوئے بتایا کہ تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ پی ڈی ایف فائلز کی صورت میں یو ایس بی میں شامل کیا گیا ہے،نیب پرا سیکیو ٹر نے اس موقع پر ہائی پروفائل کیسز کا ڈیجیٹل ریکارڈ جمع کرانے کے لیے دو ہفتوں کی مہلت طلب کی۔ جسے عدالت عظمیٰ کی طرف سے منظور کر لیا گیا ۔اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ بیرون ملک جانے سے پہلے متعلقہ شخص وزارت داخلہ سے اجازت لے گا، جب تک حکومت قانون سازی نہیں کر لیتی یہ عبوری طریقہ کار رائج رہے گا، چند دن میں رولز کے حوالے سے باضابطہ طریقہ کار وضع ہوجائے گا، ترمیم تک کوئی ملزم بغیر اجازت بیرون ملک نہیں جا سکے گا،نئے رولز کی منظوری کے بعد متعلقہ اداروں کی مرضی سے ہی ای سی ایل میں شامل ملزم بیرون ملک جا سکے گا۔سپریم کورٹ نے اس موقع پر ای سی ایل میں شامل افراد کو بیرون ملک سفر کے لیے وزارت داخلہ سے اجازت لینے کا حکم دینے سمیت کابینہ کمیٹی میٹنگ کے منٹس طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 27 جون تک ملتوی کر دی ہے۔