مزید خبریں

بجٹ آئی ایم ایف سے منظور شدہ ہے،پورے سال تبدیلی ہوتی رہے گی

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) وفاقیبجٹ آئی ایم ایف سے منظور شدہ ہے‘ پورے سال اس میں تبدیلی ہوتی رہے گی‘ تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں میں رکاوٹ آنے کا خدشہ ہے‘ پہلے ہی پیٹرول کی قیمت اور شرح سود بڑھا دی گئی تھی‘ فکسڈ ٹیکس پر عالمی مالیاتی ادارے کو راضی کرنا مشکل ہے ‘ پاکستان گرے لسٹ سے نکل گیا تو اس پر عالمی سرمایہ کاری بڑھے گی۔ان خیالات کا اظہار کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) میں بی ایم جی کے صدر زبیر موتی والا، ایف پی سی سی آئی کے صدر عرفان اقبال، بی ایم جی کے وائس چیئرمین ہارون فاروقی، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر اے کیو خلیل، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر ابراہیم کسمبی،یونائٹیڈ بزنس گروپ کے صدر زبیرطفیل اور پی ٹی آئی کے سینیٹر شوکت ترین نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’بجٹ آئی ایم ایف نے بنایا ہے یا پاکستانی حکومت نے ؟‘‘ زبیر موتی والا نے کہا ہے کہ وفاقی پوسٹ بجٹ حتمی نہیں ہے‘ آئی ایم ایف مذاکرات کے بعد مکمل ہو گا‘ اس لیے یہ کہنا کہ بجٹ آئی ایم ایف نے بنایا ہے ابھی ٹھیک نہیں ہے‘ وفاقی پوسٹ بجٹ میںیوکرین جنگ کے اثرات بھی نمایاں ہیں‘دنیا بھر میں مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور اس کو روکنے کا ابھی تک کوئی راستہ نظر آرہا ہے‘ آئی ایم ایف کے کہنے پر ہی چند دن قبل پیٹرول کے بھاؤ میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے قبل شرح سود بھی بڑھائی گئی ہے ‘ ملکی معیشت کا انحصار ایف اے ٹی ایف کے فیصلے پر بھی ہے اگر پاکستان گرے لسٹ سے نکل گیا تو عالمی سرمایہ کاری کے دروازے کھل جائیں گے۔ عرفان اقبال نے کہا کہ وفاقی پوسٹ بجٹ کے بارے میں ابھی مکمل اظہار خیال تو نہیں کرسکتے کہ کس کا بنایا ہوا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چند دنوں میں آئی ایم ایف کے وفد کو پاکستان آنا ہے وہ کیا ہدایت دیتے اس پر بعد میں رائے دی جا سکتی ہے‘ حکومت بہت مشکل معاشی حالات میں ہے‘ آئی ایم ایف کی تلوار لٹک رہی ہے اور ان حالات میں اس سے بہتر بجٹ نہیں بنایاجاسکتا ہے‘ آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر بجٹ پیش کرنا ناممکن ہے۔ہارون فاروقی نے کہا کہ وفاقی پوسٹ بجٹ میں آئی ایم ایف بار بار تبدیلی کرے گا جس کی وجہ سے تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں میں رکاوٹ آنے کا خدشہ ہے‘ موجودہ بجٹ میں پورے سال تبدیلی ہونی ہے‘ بجٹ پاکستانی ہو یا کسی اور کا لیکن اس کی حتمی منظوری صرف اور صرف آئی ایم ایف نے دینی ہے۔ اے کیو خلیل نے کہا ہے کہ وفاقی پوسٹ بجٹ آئی ایم ایف کے بغیر بنانا ممکن ہی نہیں ہے‘ آئی ایم ایف جہاں ملکوں کی معیشت برباد کرتا ہے وہیں وہ معیشتوں کو بحال بھی کرتا ہے‘ آئی ایم ایف سے قرض کے علاوہ چین سے بھی امداد کی توقع ہے اس سلسلے میں مذاکرات جاری ہیں۔ ابراہیم کسمبی نے کہا ہے کہ وفاقی پوسٹ بجٹ میں آئی ایم ایف کی مرضی شامل ہے‘ اس بات میں کوئی 2 رائے نہیں ہے۔ زبیرطفیل نے کہا ہے کہ وفاقی پوسٹ بظاہر بہتر ہے لیکن ابھی آئی ایم ایف کی منظوری شامل ہونا باقی ہے اور وہ بھی بجٹ کا حصہ ہے ابھی بہت سی باتیں سامنے آنا ضروری ہیں‘ حکومت نے چھوٹے تاجروں کو فکسڈ ٹیکس میں رکھ کر بہتر قدم اٹھایا ہے‘ اس کی آئی ایم ایف سے رضامندی مشکل ہے۔ شوکت ترین نے کہا ہے کہ وفاقی پوسٹ بجٹ آئی ایم ایف سے منظور شدہ ہے‘ معلوم نہیں کہ آئی ایم ایف نے اس بجٹ کی کیسے منظوری دی ہے‘ موجودہ حکومت نے بجٹ میں بہت سی ایسی چیزوں کا اعلان کیا ہے جس سے ہمیں روکا گیا تھا‘ 25 سے 20 فیصد مہنگائی پر جا کر شرح سود بڑھائی جائے گی اور شرح سود بھی 28 یا 30 فیصد پر جائے گی تو کاروبار کیسے چلے گا۔