مزید خبریں

۔95 کھرب 2 ارب کا بجٹ پیش:40 کھرب سود اور قرضوں کی ادائیگی کیلیے مختص

اسلام آباد(نمائندہ جسارت)وفاقی حکومت نے مالی سال 2022-23ء کے لیے 95کھرب 2ارب کا بجٹ پیش کردیاجس میں 40کھرب سے زائد سوداورقرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔مجوزہ بجٹ گزشتہ مالی سال سے 10 کھرب 15 ارب روپے زیادہ ہے۔عام آدمی پر کوئی نیا ٹیکس عاید نہیں کیا گیا، شرح نموکا ہدف 5فیصدمقرر کیا گیا ہے۔ دفاعی بجٹ میں 153 ارب روپے اضافہ کرکے 1523 ارب کردیاگیا ہے جب کہ ترقیاتی کاموں کے لیے صرف800 ارب ، تعلیم کے لیے محض 65ارب اور صحت کے لیے بھی صرف 24ارب رکھے گئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں15فیصد اور پنشن میں5فیصداضافہ کردیا گیا ہے۔سرکاری ملازمین کی سابقہ ایڈہاک ریلیف بھی بنیادی تنخواہ میں ضم کردیے گئے ہیں۔
ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے سے قومی خزانے پر71 ارب 59 کروڑ کا اضافی بوجھ پڑے گا۔وفاقی بجٹ میں 40کھرب سے زائد کا خسارہ ظاہرکیا گیا ہے۔قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ پیش کیا۔انہوں نے بتایا کہ حکومت کے اخراجات کے لیے5کھرب 30ارب رکھنے کی تجویز ہے،وزارتوں اور محکموں کے لیے 564ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں سب سے زیاد ہ این ایچ اے کو 118ارب روپے ملیں گے۔سو ل ایوی ایشن کے لیے 2.48ارب، سرمایہ کاری بورڈ کے لیے 80کروڑ ،کیبنٹ ڈویژن کے لیے 70.05ارب ، ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت کے لیے 9.60ارب ، ڈیفنس ڈویژن کے لیے2.23ارب ، وفاقی تعلیمی منصوبوں کے لیے7.23ارب ،صوبوں اور خصوصی علاقوں کے لیے 135.85ارب ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے 52ارب 64 کروڑ ،خیبر پختونخوا میں ضم قبائلی علاقوں کے لیے50ارب ،ہائر ایجوکیشن کمیشن کو 44ارب 17کروڑ ،وزارت ہائوسنگ کے لیے13 ارب95کروڑ ،وزارت داخلہ کے لیے 9 ارب 9کروڑ،میری ٹائم امور کے لیے3 ارب 46 کروڑ ،وزارت غذائی تحفظ کے لیے 10.12 ارب،وزارت صحت کے لیے 12 ارب 65 کروڑ ،اٹامک انرجی کمیشن کے لیے 25 ارب، پلاننگ ڈویژن کے لیے 42ارب ،ریلوے ڈویژن کے لیے32ارب 64کروڑ ،آبی وسائل کے لیے 99ارب اورپاور ڈویژن کے لیے 43ارب 13کروڑ روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیا گیا۔وزیرخزانہ نے بتایا کہ ٹیکس وصولی کا ہدف 70کھرب255ارب روپے مقررکیا گیا ہے کہ جس میں صوبوں کا حصہ 35کھرب 12 ارب روپے ہوگا۔1600 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس میں اضافہ ہوگا،الیکٹرک انجن کی صورت میں 2 فیصد ایڈوانس ٹیکس بھی لاگو ہوگا۔نان فائلر کے لیے ٹیکس کی موجودہ شرح 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔بجٹ میں نان ٹیکس ریونیو 2 ہزار ارب روپے ہوگا، این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 4 ہزار 100 ارب روپے ملیں گے، پاکستان بیت المال کے لیے 6 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔بجٹ تقریر کے مطابق ٹیکس تنازعات ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے، خیراتی اسپتال اگر 50بیڈز سے زیادہ کا ہوگا تو مکمل ٹیکس چھوٹ دی جائے گی۔خوردنی تیل کی مقامی پیداوار بڑھانے کے لیے انقلابی اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ٹریکٹرز، زرعی آلات، گندم، مکئی، کینولا، سورج مکھی اور چاول سمیت مختلف اجناس کے بیجوں کی سپلائی پر سیلز ٹیکس واپس لے لیا گیا ہے۔وزیر خزانہ کے مطابق توانائی کی قلت دور کرنے کے لیے رعایتیں دی جارہی ہیں، سولر پینل کی درآمد اور مقامی سپلائی پر سیلز ٹیکس ختم کررہے ہیں۔ 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کو سولر پینل کی خریداری کے لیے بینکوں سے آسان اقساط پر قرضے دیے جائیں گے۔بجٹ تقریر کے مطابق تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ کی سالانہ حد 6 لاکھ سے بڑھا کر 12 لاکھ کر دی گئی ہے۔ کاروباری افراد اور ایسوسی ایشن آف پرسنز کے لیے ٹیکس چھوٹ کی سالانہ حد 4 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ کر دی گئی۔ پنشنرز، بہبود سرٹیفکیٹ سمیت بچت اسکیموں کے منافع پر ٹیکس 10 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کردیا گیا۔ریٹیلرز کے لیے فکسڈ ٹیکس کا نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ ٹیکس وصولی بجلی کے بلوں کے ساتھ کی جائے گی۔ ٹیکس کی شرح 3 ہزار سے 10 ہزار روپے ہوگی۔ ایف بی آر تاجروں سے مزید سوال نہیں کرے گا۔بجٹ میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ مالیت کی پراپرٹی کے کرائے پر ایک فیصد ٹیکس عاiد کیا گیا ہے۔ سالانہ 30 کروڑ یا زائد آمدن والوں پر 2 فیصد ٹیکس عاید کیا گیا ہے۔ بجٹ میں وزارت قانون و انصاف کے لیے 1 ارب 81 کروڑ روپے مختص کردیے گئے۔ عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری کی عمارت کے لیے 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کے لیے 45 کروڑ ، وفاقی عدالتوں کی آٹومیشن کے لیے 39 کروڑ ، وفاقی کورٹس کمپلیکس لاہور کے لیے 10 کروڑ ،وزارت قانون کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن کے لیے 4 کروڑ 66 لاکھ اور اٹارنی جنرل کے نئے دفتر کے لیے ڈیڑھ کروڑ مختص کردیے گئے۔بجلی پر سبسڈی کی مد میں 570 ارب، پیٹرولیم بقایاجات کی ادائیگی کے لیے 248 ارب روپے خرچ ہوں گے۔فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 21 ارب روپے رکھے ہیں جب کہ زرعی شعبے میں معیاری بیجوں کی فراہمی کے لیے 11 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے پیش نظر کم آمدنی والے طبقے کو تحفظ دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت 40 ہزار روپے ماہانہ سے کم آمدنی والے خاندانوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ نافذ العمل ہے، اس ریلیف سے تقریبا 8 کروڑ لوگوں کو فائدہ ہوگا، یہ مالی امداد نئے بجٹ میں شامل کردی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ کراچی میں پانی کی کمی دور کرنے کے لیے کراچی کو پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کے لیے 20 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ اور پری پیڈ کارڈز کے ذریعے پاکستان سے باہر رقم بھیجنے والے فائلرز کے لیے ایک فیصد اور نان فائلرز سے 2 فیصد کی شرح سے ایڈوانس ود ہولڈنگ ٹیکس وصولی کا فیصلہ کیا گیا ہے، یہ ٹیکس واجب ادا ٹیکس کے خلاف ایڈجسٹ ایبل تصور کیا جائے گا۔توانائی کے شعبے میں اگلے مالی سال میں 570 ارب روپے کی سبسڈی کی تجویز دی گئی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر 71 ارب، پاسکو کے لیے 7 ارب روپے، یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 17 ارب، گلگت بلتستان کو گندم کی خریداری کے لیے 8 ارب، میٹرو بس کو 4 ارب، کھاد کے کارخانوں کو 15 ارب، نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کو 50 کروڑ روپے، نیا پاکستان کے لیے مارک اپ کی ادائیگی کی مد میں 50 کروڑ روپے اور کھاد کی امپورٹ کے لیے 6 ارب روپے کی سبسڈی دینے کی تجویز دی گئی۔سال 2002ء سے لے کر اب تک کا سب سے خاموش بجٹ ایوان میں پیش کیا یا ،بجٹ تقریر کے دوران ایوان میں قبرستان کی سی خاموشی رہی ، بجٹ تقریر کے دوران ایوان میں سوائے وزیر خزانہ کے کسی کی کوئی آواز سنائی نہیں دی ،تحریک انصاف کے منحرف ارکان اورجی ڈی اے کے ارکان بھی خاموش رہے ،بجٹ تقریر میں کتابیں پھاڑی گئیںنہ ہی ایجنڈے کی کاپیاں اڑائی گئیں۔ملکی تاریخ میں طویل عرصے بعد وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران ایوان میں کوئی شور شرابہ یا احتجاج نہیں ہوا۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بغیر ہیڈ فون لگائے بجٹ تقریر مکمل کی۔