مزید خبریں

یوکرین تنازع پر امریکا اور ناٹوروس کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق ) یوکرین تنازع پر امریکا اور ناٹو روس کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں‘ روس پر عالمی پابندیوں سے یورپ زیادہ متاثر ہوا ہے ‘ ماسکو کو نئے خریدار مل رہے ہیں‘ سستے پیٹرول و دیگر فوائد کے لیے پاکستان روس کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات بڑھائے ‘ ماسکو یوکرین میں پھنس گیا ہے‘15 ہزار تک روسی فوجی ہلاک ہوچکے‘ اب واپسی کے لیے محفوظ راستہ درکار ہے۔ ان خیالا ت کا اظہار سابق سفارتکار شاہد محمد امین، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر معراج الہدیٰ صدیقی اور بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹرمونس احمر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا روس یوکرین میں پھنس کر رہ گیا ہے؟‘‘شاہد محمد امین نے کہا کہ روس یوکرین پر حملہ آور ہوکر یقینا پھنس چکا ہے توقع تو یہ تھی کہ روس ایک بہت بڑی طاقت ہے اور وہ یوکرین میں اپنے سیاسی فوجی مقاصد جلد حاصل کر لے گا‘ لیکن 100دن گزرنے کے باوجود اطلاعات یہ آ رہی ہیں کہ بعض مقامات پر روس کو پسپائی ہو رہی ہے یا کم ازکم ایک جامد حالت میں نظر آرہا ہے‘ اس دوران میں روس پر بین الاقوامی سطح پر بہت سی پابندیاں لگا ئی گئی ہیں‘ جس سے روس کی معیشت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر روس سیاسی طور پر بھی کافی تنہا رہ گیا ہے اور اس کے علاوہ جنگ کے مالی اور جانی نقصانات بڑھ رہے ہیں اس لحاظ سے روس اپنے مقاصد حاصل کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوا ہے کیونکہ مغربی ممالک اور امریکا یوکرین کی حمایت کر رہے ہیں اس سارے معاملے میں مغربی ممالک اور ناٹو ذاتی حیثیت میں ملوث تو نہیںہیں لیکن ہر قسم کے جدید ہتھیاروں سے یوکرین کی مدد کر رہے ہیں ‘ یوکرین کے عوام اپنے ملک کی خودمختاری ، آزادی اور حب الوطنی کا جذبہ بھی رکھتی ہیں یہی جذبہ انہیں اپنے ملک پر روس کے قبضے کو روک رہا ہے‘ اس وقت روس ایک دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور فوری طور پر اس کے نکلنے کے ذرائع نظر نہیں آرہے سوائے اس کے کہ روس اپنے رویے میں کچھ تبدیلی لے کر آئے اور اس کا سفارتی حل نکالے‘روس کو یوکرین کے تمام علاقوں سے جہاں روسی زبان بولی جاتی ہے وہاں سے بھی اپنی فوجیں نکال کر یوکرین کی قومی سلامتی کا احترم کرنا چاہیے۔ معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ مجھے آپ کے سوال کہ ’’کیا روس یوکرین میں پھنس کر رہ گیا ہے؟‘‘ کہ برعکس صورت حال نظر آرہی ہے‘ میرا تو سوال یہ ہے کہ ’’کیا امریکا اور اس کے اتحادی روس کو یوکرین سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں؟‘‘ تو اس کا جواب نہیں میں ملے گا‘ اسی طرح کیا امریکا اور اس کے اتحادی یوکرین کی مطلوبہ مدد کر رہے ہیں تو ایسا بھی نہیں ہے اس پس منظر میں روس نے تو امریکا کو چیلنج کیا ہے‘ سوال روس پر نہیں بلکہ امریکا پر ہونا چاہیے کہ وہ روس کے سامنے بے بس نظر آرہا ہے اور جو اس کا ثانوی ٹھیکیداری کا تاثر یا غرور تھا وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے ہی ٹوٹ چکا ہے اور اب ٹوٹ کے ساتھ ساتھ پھوٹ بھی گیا ہے ‘ روس نے یوکرین میں داخل ہوکر یہ بتایا ہے کہ امریکا اپنے کسی اتحادی کی مدد کرنے پر بھی قادر نہیں ہے‘ صرف وہ اپنی جگہ بیٹھ کر سروس دے رہا ہے‘ یوکرین کی کوئی مدد نہیں ہو رہی اس لیے دنیا جو یونی پولر سے بائی پولر ورلڈ کی جانب بڑھ رہی ہے یعنی اسے ملٹی پولر ورلڈ بھی کہا جاسکتا ہے‘ روس ، یوکرین تنازع میں امریکا کی ساخت بہت متاثر ہوئی ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ اس تناظر میں بین الاقوامی سطح پر کوئی بھی ملک امریکا کو عالمی ٹھیکیدار تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے جہاں تک امریکا کی جانب سے روس پر عالمی پابندیوں کا معاملہ ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ روس کی معیشت کو جہاں نقصان پہنچا ہے وہاں اس کو نئے خریدار بھی مل رہے ہیں‘ ہر ملک اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر دوسرے ممالک سے تعلقات رکھتا ہے‘ اس وقت پاکستان میں یہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ پیٹرول روس سے خریدنا چاہیے تو اس کے نتیجے میں معیشت کہاں تک مضبوط ہوگی اور شاید پاکستان کے پاس اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے کہ وہ روس سے رابطہ کرے اور وہاں سے سستا پیٹرول لے کرآئے اس لیے روس کے لیے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں اس کے علاوہ پیٹرول کے مہنگا ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر دیگر تمام چیزوں پر جو اثرات پیدا ہوئے ہیں اس میں روس پر ان کا اثر کم پڑا ہے بلکہ مغر بی ممالک پر اس کا اثر زیادہ پڑا ہے اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے‘ عالمی سطح پر امریکا کی ٹھیکیداری اب ختم ہو چکی ہے اور اس کا غرور خاک میں مل گیا ہے۔ مونس احمر نے کہا کہ روس نے24 فروری کو جب یوکرین پر حملہ کیا تو اس وقت روس کو فوجی برتر ی حاصل تھی‘ روس کی سوچ تھی کہ یوکرین بمشکل ایک ہفتے مزاحمت کر سکے گا اور پھر اس کے بعد یوکرین کے باقی شہر بھی روس کے قبضے میں آجائیں گے مگر 100دن گزرنے کے بعد بھی روس یوکرین میں اپنے مقاصد حاصل نہیںکرسکا‘ اس کی 2 وجو ہات ہیں‘ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ روس نے 2014ء میں بھی مشرقی یوکرین کے باعث بعض علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا‘ روس کیو نکہ جارحیت کا مرتکب ہوا تو ظاہر ہے کہ وہ یوکرین کے عوام سے حب الوطنی ،خود مختاری اورآزادی کے جذبے کو ختم نہیں کر سکا‘ ناٹو ممالک کی مخالفت کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر روس تن تنہا ہوگیا‘ روسی عوام نے یوکرین سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے لیے حکومت مخالف مظاہرے بھی کیے ہیں‘ روس ان 100دنو ں میں اپنے 15ہزار فوجی مروا چکا ہیجبکہ سوویت یونین کے افغانستان میں 10 سالہ قبضے کے دوران 15سے 20ہزار فوجی مارے گئے تھے‘ اس مختصر عرصے میں روس کے 15ہزار فوجیوں کا مارا جانا تشویشناک بات ہے‘ یہی وجہ ہے کہ روس یوکرین میں پھنس چکا ہے‘ روس کو اب واپسی کا محفوظ راستہ درکار ہے، اس وقت روس کے لیے واپسی کا راستہ مشکل ہے ‘روس نے یوکرین میں انسانی حقوق کی جس طرح پامالی کی ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی‘ بین الاقوامی سطح پر یوکرین میں انسانی حقوق کی پامالی پر کارروائی جاری ہے، روس کے صدر پیوٹن کے اندازکے خلاف یوکرین اور اس کی فوج کا ردعمل رہا‘ دیکھنا یہ ہے کہ روس کی معیشت اور زرمبادلہ کے ذخائر جو کہ 6 سے 7 سو بلین ڈالر ہیں وہ روس پر پابندیوں کے بعد برقرار رہتے ہیں یا نہیںاور پیوٹن حکومت اس کا مقابلہ کر سکے گی یا نہیں‘ ان تمام حالات میں کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح سے بات چیت کے عمل سے مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے‘ پہلے بھی یوکرین اور روس کے درمیان بات چیت کا عمل ناکام ہوگیا تھا‘ناٹو اور امریکا کی حکمت عملی یہ ہے کہ یوکرین میں روس کو اسی طرح پھنسا کر رکھا جائے تاکہ اس کا خون بہتا رہے یہ روس کے لیے تکلیف کی بات ہے‘ روس ، یوکرین تنازع کی وجہ سے الاقوامی سطح پر خوردنی تیل، خوراک اور معیشت کی سپلائی چین متاثر ہو رہی ہے‘ پاکستان سمیت کئی ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں‘ یہ بات بالکل درست ہے کہ روس یوکرین حملے میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور وہ یوکرین میں پھنس کر رہ گیا ہے‘ روس کو اس مسئلہ کا حل بات چیت کے ذریعے تلاش کرنا ہوگا‘ روس کو یوکرین سے اپنی فوجیں نکالنی ہوںگی‘ بات چیت اس ضمن میں معنی خیز ہوسکتی ہے جب یوکرین ناٹو کا رکن نہ بنے‘ روس کو اس بات پر تشویش ہے کہ اس کے آس پاس کے ممالک ناٹو کے رکن ہیں‘ یوکرین اگر روس کو یہ یقین دہانی کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ وہ ناٹو کا رکن نہیں بنے گا تو روس اپنی فوج نکال لے گا ‘ موجودہ صورت حال میں دونوں کا پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ‘ مجھے لگتا ہے کہ یہ جنگ اسی طرح چلتی رہے گی جب تک روسی قیادت تبدیل نہیں ہوتی‘ روسی قیادت کی تبدیلی کے بعد جو بھی حکمران آئے گا وہ یقیناً یوکرین سے اپنی فوج نکال لے گا ۔
جسارت سے گفتگو