مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

خواہشات اور حقیقت
دنیا میں نادان لوگوں کی بالعموم یہ روش ہوتی ہے کہ جو شخص ان سے حق بات کہتا ہے، وہ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ گویا ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات وہ کہی جائے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، نہ کہ وہ جو حقیقت اور واقعے کے مطابق ہو۔ حالاں کہ حقیقت بہرحال حقیقت ہی رہتی ہے، خواہ وہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند۔ تمام دنیا کی متفقہ خواہش بھی کسی واقعے کو غیر واقعہ اور کسی امرِ حق کو غیر حق نہیں بنا سکتی، کجا کہ حقائق اور واقعات ایک ایک شخص کی خواہشات کے مطابق ڈھلا کریں اور ہر آن بے شمار متضاد خواہشوں سے ہم آہنگ ہوتے رہیں۔ حماقت مآب ذہن کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ حقیقت اور ان کی خواہش کے درمیان اگر اختلاف ہے تو یہ قصور حقیقت کا نہیں بلکہ ان کے اپنے نفس کا ہے۔ وہ اس کی مخالفت کرکے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، اپنا ہی کچھ بگاڑ لیں گے۔ کائنات کا یہ عظیم الشان نظام جن اٹل حقائق اور قوانین پر مبنی ہے، ان کے زیر سایہ رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے کہ اپنے خیالات، خواہشات اور طرزِ عمل کو حقیقت کے مطابق بنائے، اور اس غرض کے لیے ہر وقت دلیل، تجربے اور مشاہدے سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے۔ صرف ایک بے وقوف ہی یہاں یہ طرزِ فکر و عمل اختیار کرسکتا ہے کہ جو کچھ وہ سمجھ بیٹھا ہے، یا جو کچھ اس کا جی چاہتا ہے کہ ہو، یا جو کچھ اپنے تعصبات کی بنا پر وہ فرض کرچکا ہے کہ ہے یا ہونا چاہیے، اْس پر وہ جم کر رہ جائے اور اس کے خلاف کسی کی مضبوط سے مضبوط اور معقول سے معقول دلیل کو بھی سننا گوارا نہ کرے۔ (تفہیم القرآن، سورہ المومنون، حاشیہ نمبر 68)
٭…٭…٭
عائلی قوانین اور شریعت
کسی حکومت کے قوانین سے نہ تو شریعت میں کوئی ترمیم ہوسکتی ہے، اور نہ وہ شریعت کے قائم مقام بن سکتے ہیں۔ اس لیے جو طلاق شرعی قواعد کی رْو سے دے دی ہو، وہ عنداللہ اور عندالمسلمین نافذ ہوجائے گی، خواہ ان [حکومتی] قوانین کی رْو سے وہ نافذ نہ ہو۔ اور جو طلاق شرعاً قابلِ نفاذ نہیں ہے، وہ ہرگز نافذ نہ ہوگی، خواہ یہ [عائلی] قوانین اس کو نافذ کریں۔
اب مسلمانوں کو خود سوچ لینا چاہیے کہ وہ اپنے نکاح و طلاق کے معاملات، خدا اور رسولؐ کی شریعت کے مطابق کرنا چاہتے ہیں یا ان عائلی قوانین کے مطابق؟ (رسائل و مسائل، ترجمان القرآن، مئی 1962ء)