مزید خبریں

دعوتِ انقلاب

ہمارے سیرت نگار ولادت نبویؐ کا واقعہ بڑے دل آویز اور معنی خیز الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ جس رات آپؐ اس دنیا میں تشریف لائے، کسریٰ کے محل کے مینارے گِر گئے، آتش کدہ فارس بُجھ گیا، اور دریاے ساوہ خشک ہوگیا۔ بعض کے نزدیک یہ استعارے کی زبان ہے اور بعض کے نزدیک یہ واقعات فی الواقع پیش آئے تھے۔ یہ حقیقت ہو یا استعارے کی زبان، بلکہ اگر استعارے کی زبان ہو تو اور بھی معنی خیز ہے، تاہم یہ واقعہ اس بات کی خبر دے رہا ہے کہ ولادت نبوی ہی اس بات کی علَم بردار اور پیش خیمہ تھی، کہ عالم میں انقلاب آئے، عالمی طاقتیں سرنگوں ہوجائیں، اور گمراہی اور جاہلیت کے آتش کدے بجھ جائیں، اور کسریٰ کی عظیم الشان سلطنت پارہ پارہ ہو جائے۔
خود نبی کریمؐ کی یہ صحیح حدیث موجود ہے، کہ میں اپنی ماں آمنہ کا خواب ہوں۔ سیدہ آمنہ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میرے پیٹ سے ایک روشنی نکلی، جس سے پوری ارض شام روشن ہوگئی۔ ارض شام سے مراد محض ملک شام نہیں ہے۔ ارض شام تو سارے انبیا کی سرزمین ہے، اور اس وقت کی ارض شام آج کے شام کے برابر نہیں تھی۔ اس میں پورا شام، لبنان، اردن، فلسطین اور عراق کا ایک حصہ شامل تھا، اور یہیں سے ساری دنیا کو ہدایت ملی۔ عیسائیت اگر آج دنیا کے ایک بڑے حصے میں پہنچ چکی ہے تو اس کا مولد ارض شام ہے۔ لہٰذا وہ روشنی جو بطن مادر ہی سے ارض شام کو روشن کر رہی تھی، وہ ایک عالم گیر ہدایت اور عالم گیر مشن کی علم بردار نہ تھی تو اور کیا تھی!
تمام سیرت نگار بیان کرتے ہیں کہ ابتدا ہی سے آپؐ کی دعوت کا ایک اہم عنصر یہ تھا کہ توحید کی دعوت اگر قبول کروگے، یہ ایک کلمہ اگر تم مجھ سے قبول کر لو گے، تو عرب و عجم تمھارے سامنے سرنگوں ہو جائیں گے۔ ایک سیرت نگار لکھتے ہیں کہ یہ اس زمانے میں ایک سلوگن بن گیا تھا، اور لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے کہ یہ مٹھی بھر لوگ، یہ غلام، یہ فاقہ مست جن کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہے، کوئی حکومت اور سلطنت نہیں ہے، عرب و عجم کے مالک بن جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ لوگ اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ گویا یہ عالم گیر مشن نبوت کے پہلے ہی لمحے سے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
ہجرت مدینہ کے واقعے سے کون نہیں واقف کہ کس عالم میں آپؐ گھر سے نکلے تھے۔ تعاقب کرنے والے شکاری کتوں کی طرح پیچھے لگے ہوئے تھے۔ ریگستان کا لمبا سفر تھا جو آج کی طرح موٹر کاریا جہاز پر نہیں بلکہ اونٹنی پر ہو رہا تھا۔ آپؐ کے سر کے لیے 100 اْونٹ کا انعام مقرر تھا، جس کے لیے بے شمار لوگ آگے پیچھے پھر رہے تھے۔ اگر مکہ میںخون کے پیاسے تھے تو مدینہ میں یہودی اور منافق تھے۔ کوئی اندازہ نہ تھا کہ کیا صورت حال ہوگی۔ کوئی نقشہ نگاہوں کے سامنے نہ تھا۔
سراقہ بن جعشم کو خبر ملتی ہے کہ قریش کے دو مفرور سردار قریب سے گزر رہے ہیں۔ وہ گھوڑے پر سوار ہوا، اور 100 اونٹوںکے لالچ میں انھیں پکڑنے کے لیے پہنچ گیا۔ جب وہ قریب آیا تو آپؐ نے اللہ سے دعا کی۔ اس کے نتیجے میں اس کے گھوڑے کے پائوں زمین کے اندر دھنس گئے۔ سیرت نگاروں کے مطابق یہ واقعہ تین دفعہ پیش آیا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ مقابلہ تو کسی اور ہستی سے ہے، چنانچہ اس نے کہا کہ آپؐ امان نامہ لکھ دیجیے۔ آپؐ نے امان نامہ لکھوایا اور پھر فرمایا کہ سراقہ میں وہ وقت دیکھ رہا ہوں کہ جب کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے۔
ذرا تصور کیجیے، کس پریشانی کا عالم تھا، کیسی بے سروسامانی تھی، مستقبل کا کچھ اندازہ نہ تھا، بے یقینی کی کیفیت تھی مگر اس وقت بھی خوش خبری کسریٰ کے کنگن کی دی جا رہی ہے۔
اس سے سخت لمحہ غزوۂ احزاب کا آیا۔ سب جانتے ہیں کہ یہ مدینہ کی زندگی میں سخت ترین اور سنگین ترین لمحہ تھا۔ پورا عرب امنڈ آیا تھا، اور مدینہ کی چھوٹی سی بستی کے چاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں فوج جمع تھی، اور دفاع میں عارضی خندق تھی جس کو کوئی بھی زور آور گھوڑا پار کرسکتا تھا۔ بس یہی ایک دفاعی لائن تھی۔ اگر فوج اندر گھس جاتی تو کوئی زندہ نہ بچ سکتا تھا۔ قرآن نے نقشہ کھینچا ہے کہ دل اچھل اچھل کر حلق میں آرہے تھے، اور خوف کے مارے عجب عالم تھا۔
خندق کی کھدائی کے دوران ایک چٹان اس قدر سخت تھی کہ کسی سے نہ ٹوٹی۔ آپؐ پیٹ پر پتھر باندھے اپنے صحابہؓ کے ساتھ کھڑے تھے۔ آپؐ کو بلایا گیا۔ آپؐ نے ایک کدال ماری تو ایک روشنی بلند ہوئی۔ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے شام کے خزانے دکھائے گئے ہیں اور یہ میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔ دشمن سر پہ کھڑا ہے، چاروں طرف سے 24 ہزار کا لشکر گھیرے ہوئے ہے، اور ایک خندق کے علاوہ کوئی دفاع نہیں ہے، اس موقع پر بھی آپؐ فرماتے ہیں کہ مجھے شام کے خزانے دکھائے گئے ہیں جو میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔ دوسری کدال مارنے پر فرمایا کہ مجھے ایران کے خزانے دکھائے گئے ہیں جو میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔ تیسری دفعہ فرمایا کہ یمن کے خزانے دکھائے گئے ہیں جو میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔گویا چار دانگ عالم میں یہ سب نبوت کے لیے، مفتوح ہونے والے ہیں۔ یہ عزم وارادہ اور یقین اس کیفیت میں تھا، جس کا نقشہ میں نے آپ کے سامنے کھینچا ہے۔
مکی زندگی کا مشہور واقعہ ہے۔ سیدنا خبابؓ بن ارت، جن کے اوپر مظالم کی یہ انتہا تھی کہ انگاروں پر لٹایا جاتا تھا اور پیٹھ کی چربی پگھل کر ان انگاروں کو بجھا دیتی تھی، اس حال میں وہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ خود ہی بیان کرتے ہیں کہ آپؐ کعبہ کے سایے میں لیٹے ہوئے تھے اور چادر سر کے نیچے تھی۔ میں نے کہا کہ آپؐ اب تو دعا فرمائیں کہ بہت ظلم ہو گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ آپؐ کا چہرہ اس طرح سرخ ہوگیا جس طرح اس پر انار نچوڑ دیا گیا ہو، آپؐ ٹیک لگائے ہوئے تھے، اْٹھ کر بیٹھ گئے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم سے پہلے جن لوگوں کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا، ان کا یہ حال تھا کہ ان کے لیے گڑھے کھودے جاتے تھے، اور ان کو آروں سے چیر دیا جاتا تھا۔ لوہے کی کنگھیوں سے ان کے جسم سے گوشت کو ہڈیوں سے نوچ کر الگ کر لیا جاتا تھا، مگر وہ پھر بھی راہ خدا میں ثابت قدم رہے۔ ان کو کوئی چیز اس کی راہ سے نہ ہٹا سکی۔ خدا کی قسم! میرا یہ کام بھی پورا ہو کر رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک عورت صنعا سے حضر موت تک جائے گی، اور اس کو خدا کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہوگا… یہ دراصل عدل و انصاف پر مبنی نظام کے قیام کا اعلان تھا۔ یہ بات آپؐ نے مکی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ارشاد فرمائی تھی۔یہی بات مدینہ میں آپؐ نے اس وقت دہرائی جب حاتم طائی کے بیٹے عدی بن حاتم آئے، اور آپؐ ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے آئے۔ ان کو اپنے گدے پر بٹھایا اور خود فرش پر بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا کہ عدی! (مختلف روایات ہیں) یہ لوگ اس لیے ایمان نہیں لارہے کہ مسلمان کمزور ہیں، تم دیکھنا! ایک وقت آئے گا کہ کسریٰ کے سارے خزانے فتح کر دیے جائیں گے۔ پھر فرمایا کہ تم نے ہیرا دیکھا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں، تو فرمایا کہ ایک عورت ہیرے لے کر چلے گی، کعبے کا طواف کرے گی، تنہا ہوگی، واپس جائے گی اور اس کو کسی کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔ ایک آدمی ہاتھ میں مٹھی بھر سونا چاندی لے کر نکلے گا، کوئی اس کو لینے والا نہ ہوگا۔ عدی کہتے ہیں کہ کسریٰ کے خزانوں کی فتح میں تو میں خود شریک تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے وہ منظر بھی دیکھا کہ ایک عورت تنہا چلی اور کوئی اس کو چھیڑنے والا اور نگاہ اٹھا کر دیکھنے والا نہ تھا۔ امن اور انصاف کا یہ دور بھی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ مبارک ہو! بحیرۂ روم، استنبول میں تم نے جہاز ڈال دیے ہیں، اور استنبول فتح ہوگیا۔ صحابہ کرامؓ کو نبوت کے عالمی مشن پر اس قدر یقین تھا کہ سیدنا امیر معاویہؓ کے دور میں، جب پہلے اسلامی لشکر نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا اور ناکام ہو گیا تو ان کے ساتھ سیدنا ابوایوب انصاریؓ بھی تھے۔ ان کا آخری وقت قریب آگیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ آپؐ کی پیش گوئی ہے کہ استنبول فتح ہوگا، اسلام یورپ میں داخل ہوگا۔ مجھے اس فصیل کے جس قدر قریب ممکن ہولے جا کر دفن کردو۔ چنانچہ مسلمانوں نے عین فصیل کے قریب لے جا کر انھیں دفن کردیا، کہ اب ہم واپس جا رہے ہیں، پھر دوبارہ آئیں گے۔ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے چاہا کہ آپؐ کی پیش گوئی ہمارے حق میں پوری ہو، لیکن اس میں تقریباً ساڑھے سات سو سال لگے۔ ابو ایوب انصاریؓ کے جسد خاکی نے اتنا عرصہ انتظار کیا، اور مسلمان اس تلاش میں سرگرداں رہے کہ نبوت کا یہ عالمی مشن استنبول سے گزر کر یورپ میں داخل ہو، اور بوسنیا، بلغاریہ، جرمنی اور ہنگری کے دروازوں تک پہنچے۔ ان کو یقین کامل تھا۔ یہ ان کی ذمے داری اور مشن تھا۔ وہ اس سے آشنا تھے، گئی گزری حالت میں بھی آشنا تھے۔ ساڑھے سات سو سال بعد، منگولوں کے حملوں اور چنگیز خان کے آنے کے بعد اسی چنگیز خان کی اولاد سے وہ لوگ نکلے، جنھوں نے استنبول فتح کر لیا، اور محمد فاتح نے فتح پائی۔ اس کے ہاتھوں نبیؐ کی یہ بشارت پوری ہوئی۔
ایک وقت تھا کہ آپؐ دو آدمی تھے جو مکہ سے نکل کر تنہا ریگستان میں جا رہے تھے، اور چھے سال میں یہ حالت ہو گئی کہ آپ1400 کے قافلے کے ساتھ مکہ عمرے کے لیے تشریف لے گئے، اور کفار قریش صلح کرنے پر مجبور ہوئے۔ حدیبیہ کے مقام پر صلح نامے پر دستخط ہوئے۔ ذی القعدہ کے مہینے میں آپؐ واپس مدینہ تشریف لائے۔ وہ صلح نامہ جس کو مسلمان اپنی ذلت کا پروانہ خیال کررہے تھے، اس کو قرآن فتح مبین قرار دے رہا تھا۔
صلح حدیبیہ کے بعد بھی عرب سرنگوں نہیں ہوا تھا، مکہ فتح نہیں ہوا تھا، اور مدینہ کی اسلامی ریاست مکمل نہ ہوئی تھی، لیکن آپؐ نے فوراً اپنے گردو پیش کی ہر عالمی طاقت کو دعوت نامہ بھیج دیا۔ ایک مہینے کے اندر ذی الحجہ کے مہینے میں، گردو پیش کی چھوٹی بڑی کوئی حکومت ایسی نہیں تھی جہاں آپؐ کی دعوت نہ پہنچی ہو۔ یہاں تک کہ قیصر کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ ہاں، یہ سچے نبیؐ ہیں اور جس جگہ آج میرا تخت ہے، ایک دن اس جگہ ان کا پیغام پہنچے گا۔