مزید خبریں

سعودی عرب میں رقص و سرود کی محفلوں سے اسلامی ممالک پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں

کراچی(رپورٹ:حماد حسین) سعودی عرب میں رقص وسرودکی محفلوں سے اسلامی ممالک پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ ولی عہد محمد بن سلمان متنازع شہزادے ہیں ‘ اپنے شاہی خاندان کے افراد کو بھی نہیں بخشا‘ سعودی وژن2030ء کسی انقلاب سے کم نہیں‘ خواتین کو کلیدی مناصب دینے کا فیصلہ ہوا ہے‘ سعودیہ کو جدید خطوط پر استوار کرنیکا فیصلہ خوش آئند ہے‘ سماجی ومعاشی تبدیلیوں سے یہاں دوسرے ممالک سرمایہ کاری کریں گے۔ان خیالات کا اظہار وفاقی جامعہ اردو شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں، جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ سیاسیات کی لیکچرار رخشندہ منیر اور علما یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا اینڈ ڈیزائن کی ڈین ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ’’کیا سعودی عرب میں موجودہ سماجی و معاشی تبدیلیاں اس کے لیے بہتر ہیں اور کیا ان تبدیلیوں سے دوسرے ممالک کو فائدہ ہوگا؟‘‘ڈاکٹر رضوانہ جبیںکا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان سعودی عرب کے ولی عہد، نائب صدراور وزیر دفاع ہیں‘ وہ عرب کے معاشرے کو بدلنے اور جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ انہوںنے سعودی وژن 2030ء پیش کیا ہے جس کا مقصد صرف تیل پر انحصار کرنے کے بجائے دیگر معاشی راہداریوں کو بھی فروغ دیناہے‘ وژن 2030ء دراصل سعودی عرب میں سماجی، ثقافتی اور سیاسی تبدیلی کا منصوبہ ہے‘یہ منصوبہ 80 میگا سرکاری پروجیکٹس کے ساتھ مکمل ہو گا‘ وژن2030ء کسی انقلاب سے کم نہیں ہے کیونکہ سعودی حکومت نے پہلی بار خواتین کو کلیدی مناصب پر نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ دوسری طرف حکومت پر تنقید کرنے والے علما کرام اور بلاگرز کو قید کیا جا رہا ہے‘ اس سلسلے میں نقاد صحافی جمال خاشقجی کا استنبول میں قتل بھی ایک سوالیہ نشان ہے‘ محمد بن سلمان ایک ترقی پسند حاکم کے طور پر سامنے آئے ہیں اور وہ سعودی عرب کوایک جدید ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں‘ وہ سعودی عرب کو کنٹرول معیشت کی قید سے نکال کر اس کو مارکیٹ اکانومی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ سعودی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کر سکیں۔ علاقائی صورتحال اور عالمی منظر نامے کے تناظر میں محمد بن سلمان ازسرنو خارجہ پالیسی مرتب کر رہے ہیں جس میں وہ سعودی عرب میں تبلیغ پر پابندی جبکہ کنسرٹس، اور سنیما گھروں کو فروغ دے کر دنیا کے سامنے ایک جدید ریاست لانا چاہتے ہیں تاہم محمد بن سلمان کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ سعودی عرب میں آنے والی تبدیلی یقیناً عالم اسلام کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے لہٰذا ایسی کوئی تبدیلی جو نہ صرف عرب معاشرے بلکہ عالم اسلام کے لیے بھی منفی ہو۔ رخشندہ منیر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں موجودہ سماجی و معاشی تبدیلیاں اس کے لیے بہتر ہیں اور ان تبدیلیوں سے دوسرے ممالک کو فائدہ ہوگا‘ وژن 2030ء کو محمد بن سلمان نے 25 اپریل 2016ء کو باقاعدہ پیش کیا۔ اس پروگرام کے تحت پرانی مساجد کی نئے سرے سے تعمیر، کنگ سلمان پارک کی شاندار تزئین و آرائش اور دیگر پروگرام جو کہ حکومتی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں‘ ان سے سعودی عرب میں اقتصادی ترقی کی نئی راہیں ہموار ہوں گی‘ ملازمت اور کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے‘ سیاحت کو بھی فروغ ملے گا‘ سعودی عرب کے معاشی نظام میں یہ تبدیلیاں دوسرے ممالک کے لیے سود مند ثابت ہوں گی‘ دوسرے ممالک کے چھوٹے اور بڑے سرمایہ کاروں کو نئے راستے فراہم ہوں گے۔ یاسمین سلطانہ فاروقی کا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان اپنی پالیسیوں کے معاملے میں بہت متنازع ہیں اوران کے بعض فیصلے بہت بے رحم رہے‘ انہوں نے اپنے شاہی خاندان کے افراد کو بھی نہیں بخشا‘ ان کی معاشی پالیسیوں پر بات کی جائے تو اس کے2 پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو یہ کہ شہزادہ محمد بن سلمان کی کوششیں معیشت کے لیے بہت اچھی ہیں‘ وہ تیل پر انحصار کم کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ مستقبل میں تیل میں کمی آئے گی‘ اس سے مسائل پیدا ہوں گے‘ اب دنیا پیٹرول کے بجائے بجلی پر توجہ دے رہی ہے‘ یہ بھی متوقع ہے کہ آنے والے وقت میں پیٹرول کی قدر بھی کم ہوگی اور سعودی عرب جس کی معیشت کا دارومدار ہی پیٹرول پر ہے اس کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا تو اس اعتبار سے دیکھا جائے تو محمد بن سلمان کی پالیسیاں اپنے ملک کے معاشی مفاد میں ہیں مگر اس کا دوسرا پہلو بحیثیت مسلمان اور اسلامی نقطئہ نظر سے دیکھا جائے تو بہت افسوسناک ہے کہ اس سر زمین مقدس پر سینما کھولے جا رہے ہیں، کنسرٹ، رقص و سرود کی محفلیں وغیرہ منعقد کرائی جا رہی ہیں‘ شعائر اسلامی کا مذاق اڑایا جا رہا ہے‘ سعودی عرب مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی سر زمین ہے‘ حرمین شریفین وہیں ہے‘ اس لیے تمام مسلمان اس ملک کو اسلام کے مرکز کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہاں پر اسلامی نظام ہی نافذ رہے‘ لیکن سعودی ولی عہد بہادر مختلف سوچ کے حامل ہیں‘ اب ان کے امریکا اور جو بائیڈن کے ساتھ تعلقات بہت زیادہ خوش گوار نہیں ہیں۔ انہیں اپنی اقتصادی صورتحال کو استحکام دینے کے لیے دوسری طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ قطر سے پابندیاں اٹھانے اور تعلقات بہتر کرنے کے بعد شہزادے نے ترکی سے اپنے معاملات سدھارنے کی کوشش کی اور اس میں کافی کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ شہزادے کو چاہیے کہ ملک کے معاشی استحکام کے لیے ہر ضروری فیصلہ کریںمگر یہ نہ بھولیں کہ وہ خادم الحرمین الشریفین بھی ہیں۔