مزید خبریں

عدلیہ میں مبینہ مداخلت کا کیس ،طے کرلیں ہم کسی سیاسی طاقت،حکومت یا حساس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونگے ،چیف جسٹس

اسلام آباد(نمائندہ جسارت+آن لائن) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مبینہ مداخلت سے متعلق ججز خط کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ طے کرلیں ہم کسی سیاسی طاقت، حکومت یا حساس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے۔عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے معاملے کی سماعت کی ۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بینچ کا حصہ ہیں جب کہ حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیے۔چیف جسٹس پاکستان نے وضاحت کی 3رکنی کمیٹی نے فیصلہ کیا تمام دستیاب ججز پر مشتمل بنچ تشکیل دیا جائے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے بنچ سے الگ ہو گئے، فل کورٹ کے لیے 2ججز دستیاب نہیں ہیں، ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے، ہمیں ایک طرف یا دوسری طرف کھینچنا بھی عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، ہمیں اپنی مرضی کے راستے پر چلانے کے لیے مت دباؤ ڈالیں ، عدلیہ کو اپنی مرضی کے راستے پر دھکیلنا بھی مداخلت ہے، اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی تجاویز پڑھی ہیں۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں نے تجاویز نہیں پڑھیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ان تجاویز کو اوپن کر دیتے ہیں۔چیف جسٹس کے حکم پر کمرہ عدالت میں اٹارنی جنرل نے تجاویز پڑھیں جن میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس کے حکم نامے کو ستائش کی نظر سے دیکھتے ہیں، ایگزیکٹو اور ایجنسیوں کو اختیارات کی تقسیم کو مدنظر رکھنا چاہیے، ججز میں کوئی تقسیم نہیں ہے، سوشل میڈیا اور میڈیا پر تاثر دیا گیا کہ ججز تقسیم ہیں، ججز کی تقسیم کے تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے، اعلیٰ عدلیہ اور ضلعی عدلیہ کے ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہے، ججز کے ساتھ ایجنسیوں کے ممبران کی ملاقاتوں پر مکمل پابندی عاید کی جائے، اگر کسی جج کے ساتھ کوئی مداخلت ہوئی ہے تو وہ فوری بتائے، ججز کی شکایت کے لیے سپریم اور ہائیکورٹس میں مستقل سیل قائم کیا جائے، شکایات پر فوری قانون کے مطابق فیصلے صادر کیے جائیں۔ججز تجاویز میں کہا گیا کہ وہ ایجنسیز یا اہلکار جو ججز یا ان کے اہل خانہ کی فون ٹیپنگ یا وڈیو ریکارڈنگ میں ملوث ہیں ان کی نشاندہی کرکے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، اسٹیٹ ایجنسیز اگر ضلعی یا اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے امور میں مداخلت کریں یا بلیک میل کریں تو جج کو توہین عدالت کی کارروائی کرنی چاہیے، چیف جسٹس اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز یا کوئی اور جج سی سی ٹی وی ریکارڈنگ حاصل کرے جہاں اس کے امور میں مداخلت ہوئی ہو۔ججز نے کہا کہ ایجنسیوں کی مداخلت ایک کھلا راز ہے، اگر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز خود توہین عدالت کی کارروائی نہیں چلاتے تو ہائیکورٹ کو رپورٹ کیا جائے، ہائیکورٹ 5ججز پر مشتمل بنچ تشکیل دیکر فیصلہ کرے، اگر ہائی کورٹ کا کوئی جج رپورٹ کرے تو چیف جسٹس پاکستان کے نوٹس میں لایا جائے، چیف جسٹس پاکستان اس معاملے کو دیکھیں، ایک جج شکایت کیساتھ اپنا بیان حلفی بھی دے، بیان حلفی دینے والے جج پر جرح نہیں ہو سکتی، اگر ججز کی جانب سے شکایت کی جائے تو اسے نشانہ نہ بنایا جائے، عدالت عظمیٰ سے امید ہے کہ وہ پورا طریقہ کار طے کرے گی، شکایات خفیہ رکھی جائیں، عدلیہ اور حکومتی شاخوں سے بات چیت کرکے طریقہ کار طے کرنے کا سنہری موقع ہے، عدالتی احاطے میں ایجنسیوں کے نمائندگان کا داخلہ بند ہونا چاہیے۔جسٹس منصور علی شاہ نے اہم ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ کے ججز نے کہا عدلیہ میں مداخلت ایک کھلا راز ہے، اب ججز عدالت عظمیٰ کی طرف دیکھ رہے ہیں،پورا کیس عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے، عدلیہ میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، اندرونی و بیرونی طور ایسا نہیں ہونا چاہیے، ہائیکورٹس کے پاس توہین کا اختیار تھا لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا، افتخار چودھری کیس، بے نظیر بھٹو کیس، دھرنا کیس کی مثالیں موجود ہیں،یہ کیسی ریاست ہے جہاں فون سننا بھی آسان نہیں؟فون سنتے ہوئے بھی خوف ہوتاکہ کہیں ٹیپ تو نہیں ہو رہا؟فون پر بات کرنے کے لیے محفوظ مقام ڈھونڈنا پڑتا ہے، یہ کیا ہورہا ہے فون رکھ کر بات کرو،مجھے کوئی دیکھ رہا ہے، کوئی نوٹ کر رہا ہے، کمرے میں ڈیوائس لگی ہے، یہ کیوں ہوتا ہے؟ایک کمرے میں نہ بیٹھو ادھر بیٹھو کوئی سن لے گا، یہاں کوئی بات نہ کرو کوئی سن لے گا، بڑا بھائی سب دیکھ رہا ہے یہ کیا کلچر ہے؟کیا ایسا نہیں ہونا چاہئے ؟ کیا ایک جمہوری ملک میں ایسا کلچر ہونا چاہیے؟۔اس پر اٹارنی جنرل بولے کہ یہ شرمناک اور ناقابل قبول ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مداخلت اندرونی طور پر بھی ہو سکتی ہے، کیا چیف جسٹس کسی جج کو بلا کر کہہ سکتا ہے ایسے فیصلہ کریں، اٹارنی جنرل صاحب آپ ہم پر یہ انگلی بھی اٹھا سکتے ہیں، ہمارا ایسا کرنا بھی عدلیہ میں مداخلت کے مساوی ہے، مداخلت کسی بھی قسم کی ہو اسکا تدارک ہونا چاہیے، عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے، میں نے پہلے دن کہا تھا کہ کوئی مداخلت نہیں کروں گا، میں جب سے چیف جسٹس پاکستان بنا کوئی شکایت نہیں آئی، اس معاملے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے کہ فلاں وقت تک آنکھیں بند رکھیں اور فلاں وقت تک آنکھیں کھول دیں، یہ تو منتخب احتساب ہوا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ کیسز میں بدترین احتساب کی مثالیں موجود ہیں، ہمیں اب آگے بڑھنا ہے، ہم کسی سیاسی قوت یا کسی مخصوص ایجنسی کے لیے ہیر پھیر نہیں کرنے دیں گے، ہم وکلا یا حکومت کو بھی ایسا نہیں کرنے دیں گے، کیا ہمارے ماتحت بار کے صدور ججز سے چیمبرز میں نہیں ملتے، کیا یہ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں ہے، بہت پہلے کی بات ہے کسی نے مجھے کہا فون ٹیپ ہو رہا ہے، میں نے کہا ٹھیک ہے ٹھیک طریقے سے انہیں سننے دیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ 76سال سے ہو رہا ہے، یہ ہماری اندرونی کمزوری ہو سکتی ہے، ججز ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے میں خوف کا شکار ہیں، ہائیکورٹ کے ایک جج کا ذاتی ڈیٹا سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا، گرین کارڈ سمیت سب کچھ ان جج کی تعیناتی سے قبل جوڈیشل کمیشن میں تفصیل سے بحث ہوئی، اندرونی معاملات کو ہمیں ٹھیک کرنا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ازخود نوٹس لینے پر عدالت عظمیٰ کے ساتھ کیا کچھ ہوا یہ دیکھیں، کیا عدلیہ کی آزادی ایسے ہو سکتی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 2018 ء میں جو تضحیک آمیز مہم چلائی گئی، نادرا اور امیگریشن سمیت حکومت کے ماتحت اداروں سے ججز کے اہل خانہ کا ڈیٹا چرایا گیا، یہ تک بات ہوئی کہ ججز کے بچے کہاں پڑھتے ہیں۔اس موقع پرچیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے عدالت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے بارے میںسب کچھ بتادیا۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف کس کس نے نظر ثانی درخواستیں دائر کی؟ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اندرونی مداخلت کیسے ہوتی ہیں، 4 سال سے زاید عرصے تک نظر ثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں ہوئی، کوئی وضاحت ہے کہ کیوں تقریباً 5سال سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی؟ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا اس کے لیے بھی ایگزیکٹو ذمے دار ہے؟ یہاں پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، دنیا کو کیا نہیں پتا تھا کہ اس وقت پاکستان کو چلا کون رہا تھا؟ مگر شاید آپ لوگوں نے انہیں بچانا تھا یا شاید نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری ذات پر انگلی نا اٹھائیں، میں نے لکھ کر دیا تھا کہ جنرل فیض حمید اس کے پیچھے تھا، یہ معاملہ اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا گیا، میری اہلیہ نے بھی پولیس اسٹیشن میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا ، جب لوگ پٹری سے ہٹ جائیں تو پھر قانون سازی کی ضرورت پڑ جاتی ہے، حکومت آخر کب قانون سازی کرے گی؟ چیف جسٹس پاکستان نے بتایا کہ جب تک پارلیمان مضبوط نہیں ہوگی دوسری طاقتیں مضبوط بنتی جائیں گی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت نے معاملہ پر ایک کمیشن بنایا جس نے اس فیصلے کو غیر مؤثر کردیا، جسٹس بابر ستار کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ خوف ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بلوچستان کی ضلعی عدلیہ کی جانب سے تجاویز نہیں آئیں، اس کا مطلب ہے کہ بلوچستان میں مداخلت نہیں ہو رہی، یا یہ مطلب ہے کہ بلوچستان کے ججز کو علم ہے اگر مداخلت ہو تو کیسے ردعمل دینا ہے۔اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ میرا خیال ہے ایسا نہیں ہے، یہاں ایسا کلچر بالکل بھی نہیں ہے، میں اس تھیوری سے اتفاق نہیں کرتا، اگر میں مداخلت کے دباؤ میں درست فیصلہ نہیں دے سکتا تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے، میں ایسے بیان کو قبول نہیں کر سکتا، میں بلوچستان میں پانچ سال سے زائد عرصہ تک چیف جسٹس رہا، مجھے سب سے زیادہ خطرہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کا چار سال چیف جسٹس رہا، اس دوران کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آج تک کسی نے میرے کام میں مداخلت نہیں کی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا لوگ مداخلت کرتے ہیں کہیں کامیاب ہوتے ہیں کہیں کامیاب نہیں ہوتے یہ ایک جج پر منحصر ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہر جج تو نہیں کھڑا ہوتا ہمیں نظام بنانا ہے، سول جج کو بھی پتا ہو کہ سارا نظام ساتھ تو وہ چیتے کی طرح کھڑا ہوگا۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ملک میں تین ایجنسیاں ہیں، آئی بی ، آئی ایس آئی اور ایم آئی کس قانون کے تحت بنیں، ہمیں آئندہ سماعت پر ان ایجنسیوں کے قانون بتائیے، یہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی جج جرات دکھا دے اس کے خلاف ریفرنس آجاتا ہے، ہم خود اپنے دروازے لوگوں کے لیے نہ کھولیں تو کچھ نہیں ہوگا، ایک جج کے خلاف پرسنل ڈیٹا لے کر مہم چلائی گئی، آپ نے ایک جے آئی ٹی بنائی تھی عدلیہ کے لیے جس نے 31 نوٹس بھیجے، کیا اس جے آئی ٹی نے اس معاملے کو دیکھا؟ اگر نہیں تو دوبارہ یہ ملی بھگت ثابت ہوتی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ دروازہ کھولنے والے کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کریں۔اٹارنی جنرل نے پشاور ہائیکورٹ کے ججز کی تجاویز پڑھیں جن میں کہا گیا کہ پشاور کے ججز کو ایجنسیوں نے رابطہ کیا، جب قانون کے مطابق فیصلہ کیا تو افغانستان سے دھمکیاں ملیں، کاؤنٹر ٹیررازم سے رجوع کیا گیا لیکن کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ پشاور ہائیکورٹ کے ججز کی تجاویز میں فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ بھی دیا گیا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2017 ء میں آپ کے خلاف پولیٹیکل انجینئرنگ تھی، کبھی بھی سول بالادستی نہیں رہی، جب ریاست خود جارحیت پر اتر آئے کوئی شہری اس سے لڑ نہیں سکتا، ادارہ جاتی رد عمل ہی اس کا حل ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ ججوں کی تعیناتی میں خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس کو نہیں دیکھا جائے گا اور انٹیلی جنس ایجنسیاں جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں ہیں، عدلیہ کی آزادی کی بات کرنے والے شاید یہ نہ جانتے ہوں اس کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا، ہمیں جج بناتے وقت وکیل سے متعلق معلومات لینے کے اور ذرائع دستیاب ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ نے پریس کانفرنس میں کہا 6ججز نے مس کنڈکٹ کیا۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں سر، ایسا کچھ کسی نے بولا ہے تو میں اسے ریجیکٹ کرتا ہوں، 6 ججوں کا خط لکھنا کوئی مس کنڈکٹ نہیں تھا۔عدالت نے تمام فریقین سے تحریری معروضات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی کردی۔عدالت عظمیٰ نے سماعت کا تحریری حکم نامہ لکھوایا کہ پانچوں ہائیکورٹس نے اپنی تجاویز پیش کیں، اٹارنی جنرل الزامات کا جواب یا تجاویز دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، اگر کوئی خفیہ ادارے کا نام آیا اور وہ جواب جمع کرانا چاہے تو اٹارنی جنرل کے ذریعے کرا سکتا ہے۔