مزید خبریں

دوسری شادی کو معیوب سمجھنا

دنیوی زندگی کے دوران ہر انسان کے لیے موت مقرر ہے اور ایک نہ ایک روز ہر ایک نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ شوہر اور بیوی بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ کبھی شوہر پہلے فوت ہوجاتا ہے تو کبھی بیوی۔ اس پر انسان کا بس نہیں چلتا ہے۔ ہم روز مرہ زندگی میں اس کو ایک معمول سمجھتے ہیں کہ آئے روز اس سے ہمیں واسطہ پڑتا رہتا ہے۔
اسلام نے شوہر اور بیوی کے درمیان قائم تعلق کو تقدس اور احترام کا درجہ دیا ہے کیونکہ اسی رشتے کے نتیجے میں انسانی معاشرہ پھلتا پھولتا ہے۔ اس لیے اگر شوہر فوت ہوجائے تو عورت پر اس کا سوگ منانا ایک مقررہ مدت تک فرض کیا گیا ہے، اور اگر بیوی فوت ہوجائے تو اس پر بھی سوگ کا ایک طریقہ طے کیا گیا ہے لیکن کسی ایک کو دوسرے کے انتقال کی صورت میں شادی کرنے سے روکا نہیں گیا ہے، بلکہ شادی کی خواہش اور استطاعت ہونے کی صورت میں حسبِ ضرورت اس کو فرض، واجب یا مستحب کہا گیا ہے۔

اس سے بڑھ کر یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ صرف انتقال کی صورت میں ہی نہیں، بلکہ طلاق کی صورت میں بھی عدت مکمل ہونے کے بعد عورت کو دوسری شادی کرنے کا حق دیا گیا ہے اور کسی عزیز رشتے دار کو اس بات سے روکنے کا حق شریعت نے نہیں دیا ہے:

’’جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمھیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ تمھارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔ (البقرہ: 232)

لہٰذا کسی برادری، رشتے دار، باپ دادا یا اولاد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی مرد کو اْس کی بیوی کے انتقال کے بعد دوسرے نکاح سے روکے، اور نہ کسی بیوہ کو اس کے شوہر کے انتقال کے بعد دوسری شادی سے روکے۔ حلال اور حرام کے حدود مقرر کرنا اللہ کا کام ہے۔ کسی اور کو اس میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔ شادی کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے، اور انسانی معاشرے کے قیام اور بقا کے لیے ضروری بھی ہے۔ گویا شوہر یا بیوی کی وفات کی صورت میں بھی اور طلاق یافتہ عورت اپنی ضروری عدت مکمل کرنے کے بعد اپنے حالات اور ضروریات کے تحت دوسری شادی کرنے کا مکمل حق رکھتے ہیں۔ اْن کو اس حق کے استعمال سے روکنا صریح ظلم ہے جس کی اجازت اسلام نے قطعاً نہیں دی ہے۔

اگر کسی برادری میں یہ رسم اور رواج موجود ہے تو معقول انداز میں اْن کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے، اور اللہ کے حکم کے مقابلے میں کھڑا ہونے، اس کی راہ روکنے یا اس کی مخالفت کرنے کے انجام سے ان کو خبردار کیا جانا چاہیے۔ نیز اس حکم کی خلاف ورزی کے نتیجے میں جو فساد پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اس سے بھی آگاہی ہونی چاہیے۔ رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’جب تمھارے پاس رشتہ لینے دینے کے لیے کوئی ایسا شخص آجائے جس کے دین و اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کو رشتہ دے دیا کرو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔ گویا کہ اچھے رشتے اور پسندیدہ رشتے کے ملنے کے بعد اس میں پس و پیش کرنا یا روڑے اٹکانا یہ روے زمین پر فساد اور فتنے پھیلانے کا باعث ہے۔ اس سے گریز کیا جائے اور اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی راہ میں روڑے نہ اٹکانے چاہییں۔