مزید خبریں

!قوم کی ترقی کا راز کام،کام اور کام میں مضمر ہے

لغوی معنوں میں کام(Work) سے مرادکسی مقصد یا نتیجہ کے حصول کے لیے جسمانی، ذہنی یا توانائی کی سرگرمی شامل ہو یا کوئی ایسی سرگرمی جس میں کوئی شخص اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے باقاعدہ طور پراس کام سے منسلک ہو۔کام کرنے والے شخص کو نوکر، کار کن، کاریگر، کارگزار یا ملازم بھی کہا جاتا ہے۔ مسلسل کام محنت میں تبدیل ہوکر محنت و مشقت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ کام کے متعلق ایک مشہور کہاوت ہے کہ ہے آدمی، ہے کام ،نہیں آدمی تو نہیں کام۔ یعنی انسان کے دم سے اس دنیا میں کام قائم ہے، انسان نہیں ہوتا تو کام بھی نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کرنے والے کے لیے بہت کام ہوتا ہے، جو نہ کرنا چاہے اس کے لیے کچھ کام نہیں ہوتا۔ جگر مراد آبادی نے کام کی اہمیت پر کیا خوب کہا ہے۔

نہ غرض کسی سے نہ واسطہ
مجھے کام اپنے ہی کام سے

کسی بھی ادارہ میں کام،نوکری یا ملازمت انجام دینے والے کو ملازمتی قانون کی اصطلاح میں کارکن(Workman) کہا جا تا ہے۔ کارکنوں کی بے شمار اقسام ہیں جیسے قدیم پیشہ جات کسان، بڑھئی ،کمہار، لوہار، حجام، مزدور، کارکن اور وائٹ کالر ملازمین وغیرہ شامل ہیں۔کارکنوں کی فہرست میں غیر ہنر مند، نیم ہنر مند ، ہنر مند اور اہل حرفہ یعنی پیشہ ور کاریگر آتے ہیں یعنی ایسے کام جن کو اختیار کرنے کے لیے مشق کے ساتھ ساتھ خصوصی تجربہ بھی ضروری ہو۔ تاریخی طور پر چند قدیم پیشوں تدریس، طب ،صحافت اور قانون (منصفی)کو تمام پیشوں میں افضلیت حاصل ہے۔ طب اور منصفی کے پیشہ سے سے وابستہ افراد اپنے پیشہ کہ ذمہ داریوں اور ان پر صدق دل سے عمل پیرا ہونے کے لیے باقاعدہ حلف بھی لیتے ہیں۔ جبکہ درمیانہ درجہ کے پیشہ ورانہ مہارت والے کاموں میں پلمبر، الیکٹریشن، مکینک، ویلڈر، مستری، قصاب، حجام، درزی، ڈرائیور اور معمار وغیرہ شامل ہیں۔

کسی بھی کارکن کے لیے اس کے اوقات کار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ جن میں کام انجام دینے کے لیے پابندی وقت سے کام کی جگہ حاضری، تفویض کردہ کام کی دل جمعی سے اور بلا خلل انجام دہی اور برق رفتاری سے کام کی نتیجہ خیز تکمیل شامل ہے۔ لیکن افسوس ملک میں دیگر معاشرتی خرابیوں کی طرح سرکاری محکموں، صنعتی، تجارتی، کاروباری اور دیگر پیداواری شعبوں میں تاحال کام کی ثقافت (Working culture) پروان نہیں چڑھ سکی اور نہ ہی کام کی اقدار ، کام کی پذیرائی اور کام کے فروغ کا صحت مند ماحول پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے دیہی معاشرہ میں شعبہ زراعت میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے لیے ایک تحقیر آمیز اصطلاح “کمی یا کمین اور کمدار” استعمال کی جاتی ہے ۔

اگر ملک میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں اور ملازم پیشہ طبقہ کی سالانہ کارکردگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم بطور قوم شائد دنیا میں ہفتے میں سب سے کم پیداواری گھنٹے کام کرنے والی قوموں میں شمار ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک مقروض الحال اور خسارہ کا شکار قوم دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام کی نقالی کرتے ہوئے دن میں بمشکل چند گھنٹے ہی کام کرتی ہے اور ہفتے کے پانچ دنوں پر مشتمل اوقات کار اور دو ہفتہ واری تعطیلات سے پوری طرح لطف اندوز ہورہی ہے۔ اکثرسرکاری اداروں کے آرام طلب اور تن آسان ملازمین تو ہفتے کے پانچ روزہ اوقات کار کے دوران بھی اکثر اپنے کام کی جگہوں سے غائب ہی پائے جاتے ہیں۔ لیکن سرکاری اداروں میں سیاسی اور سفارشی ذرائع سے ہونے والی بھرتیوں اور کمزور دفتری نظم و نسق کے باعث ان کام چور ملازمین سے جوابدہی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

اگر ملک میں ہونے والی مجموعی سالانہ تعطیلات کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئے گی کہ دنیا کی دیگر ترقی یافتہ قوموں کی نقالی کرتے ہوئے ہماری مقروض اور دیوالیہ قوم پر تعیش انداز میں دو ہفتہ واری تعطیلات (سالانہ104 تعطیلات) کے علاوہ ،11 عام تعطیلات، 22 اختیاری تعطیلات، چند مقامی تعطیلات اور تین بینک تعطیلات سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ جس کے دوران کاروبار مملکت مکمل طور پر ٹھپ رہتا ہے۔ جبکہ سرکاری ملازمین کے لیے مروجہ سالانہ 20 اتفاقیہ، 33 بیماری اور 33 استحقاقیہ رخصتیں اس کے علاوہ ہیں۔

ملک کے سرکاری دفاتر میں ہفتے کے آخری دن یعنی جمعہ کو سب سے قلیل وقت کام انجام دیا جا تا ہے۔ یہ بھی مشاہدہ ہے کہ جمعہ کے دن اکثر سرکاری ملازمین یا تو اپنے دفاتر میں حاضری لگا کر بلا اجازت اپنے آبائی شہروں کو روانہ ہو جاتے ہیں یا پھر نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنے کاموں پر واپس نہیں آتے۔ آبائی شہروں کا رخ کرنے والے سے لاپرواہ سرکاری ملازمین تین دن کی چھٹی مناکر سفر کرتے ہوئے پیر کے دن دوپہر کو اپنے دفاتر میں کام پر حاضر ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ لاڈلے سرکاری ملازمین ہفتے میں صرف تین دنوں کے اوقات کار میں کام کرتے ہیں۔

ایک محتاط جائزہ کے مطابق پاکستانی کارکن دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے محنتی کارکنوں کے مقابلہ میں سال کے 365 دنوں کے دوران تقریباً 150 سے زائد دن تک اپنے کام کاج سے دور رہتے ہیں۔ جبکہ آج کے پر آشوب معاشی دور میں خاندان کی کفالت کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور اشیائے صرف کی بلند قیمتوں کے پیش نظر اپنی آمدنی میں اضافہ اور غربت کے خاتمہ کے لیے پاکستانی کارکنوں کو دن میں کم از کم 12 گھنٹے جان فشانی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ملک اور قوم موجودہ سنگین معاشی بحران کی دلدل سے نکل کر معاشی طور پر ایک مستحکم اور خود کفیل قوم بن سکے۔

فروغ انسانی وسائل کے شعبہ میں سرکاری اداروں میں غیر تسلی بخش اور ناقص کارکردگی کے حامل ، سست ، نکھٹو ، نکمے اور کام چور قسم کے ملازمین کے لیے فضول کارکن (Deadwood) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ جبکہ ملک کے اکثر و بیشترسرکاری محکموں میں اس قسم کے سست، کاہل، نکھٹو ،نکمے ، بہانے باز، عادی کام چور ، غیر تسلی بخش اور ناقص کارکردگی کے حامل لاکھوں ملازمین کی بھرمار ہے۔ سیاسی دباؤ اور بھاری سفارشوں کے ذریعہ بھرتی ہونے والے ان سرکاری ملازمین کی بدن بولی(Body Language) سے ہی ان کی نا اہلیت اور عادی کام چوری ثابت ہوتی ہے۔ سرکاری اداروں میں اپنے فرائض سے غفلت اور کام چوری کی اس تشویشناک صورت حال کے باعث عوام الناس کے ادا کردہ بھاری محصولات سے تنخواہ پانے والے یہ نکمے اور بدعنوان سرکاری ملازمین اب ناقابل اصلاح ہوچکے ہیں اور اس کے نتیجہ میں سرکاری مشینری اورملک کے بیشتر قومی اداروں کا نظم و نسق تباہ و برباد ہوچکا ہے اور عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کئے گئے ان قومی اداروں کی خدمات اور کارکردگی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ جس کا سراسر خمیازہ بے بس اور کمزور عوام الناس کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

اگرچہ اس وقت حکومت نے سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح ساڑھے آٹھ بجے سے شام ساڑھے چار بجے تک مقرر کئے ہوئے ہیں۔ لیکن آپ صبح کے وقت کسی بھی سرکاری دفتر میں چلے جائیں تو وہاں افسران اور ماتحت ملازمین کے بجائے الو ہی بول رہے ہوں گے۔ سرکاری محکموں میں یہ عام رحجان بھی پایا جاتا ہے کہ بیشتر اعلیٰ افسران بھی دن چڑھے اپنے دفاتر آتے ہیں اور اس طرح ان کے ماتحت ملازمین بھی اپنے افسران بالا کی منفی روش کے نقش قدم پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت، وزراء اور اعلیٰ افسران کی جانب سے اپنے ماتحت افسران و ملازمین سے اپنے کام پر بروقت حاضری اور ان کی کارکردگی جانچنے سے متعلق باز پرس میں سخت غفلت اور جوابدہی کا عمل نہ ہونے کے باعث اکثر سرکاری ملازمین میں دفتری ضابطہ اخلاق کی کھلم کھلا خلاف ورزی، دفتری اوقات کار کی پابندی نہ کرنا، قبل از وقت گھروں کو چلے جانا، اوقات کار کے دوران آپس میں گپیں ہانکنا، چائے نوشی و سگریٹ نوشی اور کھانے اڑانا، سیل فون پر عزیزوں اور دوستوں سے بے تکان گفتگو کرنا اور ذاتی امور کی انجام دہی کے لیے تفویض کردہ کام کو نامکمل چھوڑ کر حیلے بہانوں سے غائب ہوجانا ایک قومی رحجان بن گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کا یہ عمل بد عملی کے ذمرہ میں آتا ہے اور دفتری نظم و نسق کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے جو مستوجب سزا ہے اور اس بد عملی کی زیادہ سے زیادہ سزا ملازم کی ملازمت سے برطرفی کی صورت ہوسکتی ہے۔