مزید خبریں

امریکا،چین جنگ کا امکان نہیں‘ دونوں عالمی معیشت پراپنا کنٹرول چاہتے ہیں

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) امریکا،چین جنگ کا امکان نہیں‘ دونوں عالمی معیشت پراپنا کنٹرول چاہتے ہیں‘ امریکی صدر جوبائیڈن نے چینی اسٹیل اور المونیم پر3 گنا ٹیرف عاید کرنے کی تجویز دی ہے‘ ہاتھیوں کی لڑائی میںپاکستان اپنے مفادات کومدنظررکھے ‘بھارت امریکی مفادات کا محافظ نہیں بنے گا‘پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ امریکا کے افغانستان میں چھوڑے گئے ہتھیار ہیں۔ ان خیالات کا اظہار اسلام آباد چیمبر برائے اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے صدر سجاد سرور ،سول سوسائٹی کے ممبر اظہر شیخ ، فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے مرکزی رہنما اسرار الحق مشوانی ، تجزیہ کار سفارتی امور کے ماہر اعجاز احمد،ایف پی سی سی آئی کے سابق ایگزیکٹو ممبر ممتاز تاجر رہنما عمران شبیر عباسی ،تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات اور دانشور کالم نگار افتخار چودھری، تجزیہ کار مصنف اور دانشور ڈاکٹر فاروق عادل، تجزیہ کار فیصل حکیم، تجزیہ کار اور سابق اولمپیئن سلیم ناظم اور تجزیہ کار مدثر فیاض چودھری
نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ امریکا اور چین کی کشمکش میں فاتح کون ہوگا؟‘‘ سجاد سرور نے کہا کہ چین نے ایک سال کے لیے پاکستان کا قرض موخر کیا ہے‘ چین نے ابتدائی طور پر قرض پر موجودہ شرح سود میں مزید کی درخواست کی تھی‘ اس وقت پاکستان اس قرض پر 7.1 فیصد کی شرح سے ادائیگی کر رہا ہے، یہ شرح 6 ماہ کے سیکیورڈ اوور نائٹ فائنانس ریٹ پلس 1.715 فیصد کے فارمولے کے تحت متعین کی جاتی ہے‘ ہماری معیشت اس وقت جس حالت میں ہے اس موقع پر چین کا قرضے کو موخر کرنا پاکستان کے ساتھ دوستی کی دلیل ہے اب ہماری حکومت کو چاہیے کہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے چین جیسے دوستوں اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جیسے اداروں پر انحصار کرنے کے بجائے کچھ ایسے اقدامات کرے جن کی مدد سے ملکی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہوسکے‘ دوسری جانب یہ صورت حال بھی ہے کہ پاکستان کی سر زمین پر افغانستان سے لائے جانے والے غیر ملکی اسلحے کے استعمال کے ثبوت ایک بار پھر منظرعام پر آگئے‘ سیکورٹی فورسز نے امریکی ساختہ اسلحہ برآمد کیا ہے‘ دہشت گردوں نے گزشتہ ماہ مارچ میں گوادر پورٹ اتھارٹی پر حملے کے دوران بھی امریکی اسلحے کا استعمال کیا جو سیکورٹی فورسز نے جوابی کارروائی میں برآمد کیا ہے‘ ہمیں تو اپنے ملک کا مفاد عزیز ہونا چاہیے اور ہم دیکھیں کہ عالمی کشکمش میں امریکا اور چین کے رویے میں فرق کیا ہے‘ اس وقت سب جانتے ہیں کہ امریکا کی شہہ پر ہی اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے اور چین کا کردار بہت مختلف ہے لہٰذا امکان یہی ہے کہ دنیا پر غالب آنے کی جنگ میں امن کے قیام میں چین امریکا پر برتری رکھتا ہے۔ اظہر شیخ نے کہا کہ امریکا اور چین صرف معیشت کے میدان میں ایک دوسرے کے حریف ہیں‘ دونوں میں بلواسطہ یا براہ راست جنگ کا امکان نہیں ہے تاہم پاکستان کو امریکا کے متعدد فیصلوں سے پریشانی ہے‘ پینٹاگون نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امریکا نے افغان فوج کو کل 427,300 جنگی ہتھیار فراہم کیے تھے جس میں 300,000 انخلا کے وقت باقی رہ گئے تھے‘ پاکستان کی سلامتی، بقا اور معیشت کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ امریکا اور چین معاشی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں‘ ہمیں زیادہ فکر اپنی کرنی چاہیے۔ اعجاز احمد نے کہا کہ دنیا کسی تصادم کی حمایت نہیں کرے گی چین تو ویسے بھی جنگ نہیں چاہتا بلکہ اس نے تو اعلان کر رکھا ہے کہ 2025ء تک وہ کسی سے جنگ نہیں کرے گا لیکن وہ اپنے معاشی مفادات پر ضرور پہرہ دے گا اس نے معاشی مارکیٹ پر قبضہ کر لیا ہے اور اگر امریکا اور چین میں جنگ ہوئی تو یہ ہتھیاروں کی نہیں بلکہ معاشی میدانوں میں اقتصادیات کی جنگ ہوگی‘ امریکا میں صدارتی انتخابات میں کیا نتیجہ سامنے آتا ہے اسے دیکھ کر ہی دونوں ملکوں کے تعلقات پر بات ہوسکتی ہے لیکن یہ جنگ فوجی پھر بھی نہیں ہوگی۔ عمران شبیر عباسی نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے چینی اسٹیل اور المونیم پر3 گنا ٹیرف عاید کرنے کی تجویز دی ہے‘ وہ نومبر میں ہونے والے الیکشن میں مزدور ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے کوشاں ہیں‘ جو بائیڈن کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ یو ایس ٹریڈ ریپریزنٹیٹو (یو ایس ٹی آر) نے حال ہی میں 5 امریکی یونینز کی جانب سے دائر پٹیشن کے جواب میں بحری جہاز سازی، میری ٹائم اور لاجسٹک سیکٹر میں چین کے طریقہ کار کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کیا ہے‘ جو بائیڈن اور ان کے انتخابی حریف ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی الیکشن نتائج میں اہم کردار ادا کرنے والے مزدور ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے میدان میں ہیں اور امریکی صنعت کو بحال کرنے کے وعدے کر رہے ہیں‘ چین کی اپنی اسیٹل اور المونیم انڈسٹریز کے لیے پالیسیاں اور سبسڈیز کا مطلب ہے کہ مصنوعی طور پر کم قیمت، زیادہ آلودگی پیدا کرنے والی متبادل چینی اشیا امریکا کی اعلیٰ معیار کی اشیا سے کم لاگت رکھی جا رہی ہیں۔ عالمی سطح پر اسٹیل کی پروڈکشن کا آدھا حصہ چین پیدا کر رہا ہے جب کہ اس کی میٹل برآمدات کی قیمت نمایاں طور پر امریکا کی اسٹیل قیمت سے کم ہے۔ جو بائیڈن نے موجودہ ٹیرف کو ٹریڈ ایکٹ کے سیکشن 301 کے تحت 3 گنا کرنے پر زور دیا ہے‘ اس وقت اس سیکشن کے تحت اسٹیل اور المونیم پر اوسط ٹیرف 7.5 فیصد ہے‘ جو بائیڈن حکام کو چین کی جانب سے ٹیرف خلاف ورزی کو روکنے کے لیے میکسکو کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ہدایات بھی دے رہے ہیں۔ افتخار چودھری نے کہا کہ میرا خیال ہے مستقبل قریب میں ایسا نہیں ہونے والا‘ چائنا کی پالیسی ہے کہ آگے بڑھنا اور خاموشی سے آگے بڑھنا جب امریکا جھنجھلا کر ایک فیصلہ کر لے گا کہ اب اس نے چائنا کو برداشت نہیں کرنا تو دنیا اس وقت دیکھے گی۔ ڈاکٹر فاروق عادل نے کہا کہ امریکا اور چین میں مخاصمت ہے اور یہ رہے گی‘ صرف یہ دیکھیں کہ امریکا بھارت کو چین کے خلاف اور پاکستان کے خلاف کس حد تک استعمال کر سکتا ہے‘ بہر حال اس وقت دنیا کی توجہ معیشت درست کرنے پر ہے لہٰذا جنگ کی کوئی صورت نہیں ہے سعودی عرب اور ایران میں صلح چین کی کوشش سے ہوئی ‘اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکا کی قیمت پر ہوئی‘ امریکا کی فوجیں ابھی بھی سعودی عرب میں موجود ہیں اور یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتی ہیں‘ ہوسکتا ہے کہ امریکا اور بھارت دونوں سی پیک کے ثمرات سمیٹنے کے لیے اس منصوبے میں آجائیں۔ فیصل حکیم نے کہا کہ صرف سرد جنگ رہنی ہے‘ کوئی براہ راست تصادم نہیں ہوگا‘ دونوں ممالک براہ راست تصادم نہیں چاہتے‘ امریکی معیشت بھی اس قابل نہیں کہ چین کا مقابلہ کر سکے،دوسرا امریکا کے لیے اس خطے میں پاؤں جمانا مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ بھارت کے ساتھ تعاون صرف بھارت کے مفاد تک محدود ہے‘ بھارت کبھی بھی امریکی مفادات کا محافظ نہیں بنے گا‘ امریکا کے لیے جو پاکستان کی اہمیت تھی‘ بھارت اس پر پورا نہیں اتر سکتا‘ پاکستان کا واضح جھکاؤ جو نظر آرہا ہے‘ وہ ہمسایہ ملک کی طرف ہے اور ظاہر ہے ہمسائے تبدیل تو نہیں کیے جا سکتے لیکن پاکستان بھی اب اپنے مفاد کو مدنظر رکھے گا‘ امریکا سے بھی نہیں بگاڑے گا اور چین کو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سلیم ناظم نے کہا کہ چین اور امریکا دونوں سپر پاور ہیں‘ انہیں خود بھی جنگ کے نتائج کا علم ہے یہ لڑائی نہیں لڑیں گے لیکن اپنے معاشی مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ ضرور کریں گے‘ اب تک جو بھی صورت حال دنیا کے سامنے آئی ہے اس سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ دونوں جنگ نہیں چاہتے لیکن اقتصادیات پر قابض ہونا اور قابض رہنا چاہتے ہیں‘ کووڈ میں بھی یہی کچھ ہوا کہ دونوں ملکوں نے خوب دولت کمائی۔ مدثر فیاض چودھری نے کہا کہ ہمیں یہ فکر رہنی چاہیے کہ امریکا اور بھارت ہمارے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں۔