مزید خبریں

قرآن فہمی

قرآن کے بارے میں اس امت سے پوچھا جائے گا: ’’(اے پیغمبرؐ!) تم بہرحال اس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعے سے تمھارے پاس بھیجی گئی ہے، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم سے اس کی بابت بازپُرس ہوگی‘‘۔ (الزخرف: 34-44)

پھر سورۂ صٓ میں یہ بھی بتادیا کہ اس قرآن کے بارے میں ہماری ذمے داری کیا ہے؟
’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ!) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر والے اس سے سبق لیں‘‘۔ (صٓ: 29)
ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اس آیت میں قرآن کو سمجھنے کے دو پہلو بیان کیے ہیں، یعنی تذکّر اور تدّبر اور پھر ان دونوں پہلوؤں کی تشریح کی ہے جس کا خلاصہ درجہ ذیل ہے:
تذکّر: قرآن کو اتنا سمجھنا کہ اس سے انسان نصیحت حاصل کر سکے۔

یہ سب کے لیے ضروری ہے۔ قرآن کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ہم اس کو سمجھ کر پڑھیں اور اس پر عمل کریں اور اس کو دوسروں تک پہنچائیں۔ تذکّر میں قرآن پر غور وفکر تو شامل ہیں مگر بہت گہرائی میں غوطہ زنی کی ضرورت نہیں ہوتی، بہت مشقّت و محنت مطلوب نہیں ہے۔ انسان کے اندر طلبِ حقیقت ہو اور قرآن سے براہِ راست رابطہ ہو جائے تو تذکّر حاصل ہو جائے گا۔ قرآن مجید کو اس حد تک سمجھنے کے لیے بس اتنی عربی ضرور آتی ہو کہ عربی متن کو براہِ راست سمجھ سکیں۔ کم از کم اتنا تو ہو کہ جب قاری حضرات نماز یا تراویح میں قرآن پڑھیں تو سمجھ آتی ہو۔ تھوڑی محنت سے یہ فائدہ قرآن سے ہر شخص حاصل کر سکتا ہے۔ سورئہ قمر میں اللہ ارشاد فرماتا ہے:
’’اور یقیناً ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا‘‘؟ (القمر: 17)

اس آیت کو اس سورت میں چار بار دہرایا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اے نبیؐ! ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں، آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغامات وحی کیا کرتے تھے۔ اہل ِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔ پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا، اور اب یہ ذکر (قرآن) تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو ان کے لیے اُتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44)

تدّبر: تذکّر کے برعکس قرآن پر تدّبر وتفکر کرکے اس کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے نہ صرف عربی کے گہرے علم کی ضرورت ہے بلکہ دوسرے علوم سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ تدبّر کے لحاظ سے قرآن مشکل ترین کتاب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا منبع اور سرچشمہ وحی الٰہی ہے اور علم الٰہی لامتناہی ہے۔ اس کو کوئی شخص نہ عبور کر سکتا ہے نہ گہرائی میں اس کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ ناممکن ہے چاہے پوری زندگیاں کھپا لیں۔ اس کا احاطہ کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ (بیان القرآن، اول، ص 96-97)

قرآن کی اس طرح تفسیر و تشریح کو سمجھنے کے لیے علما نے کئی بنیادی علوم (15 یا اس سے زیادہ) کو لازم قرار دیا ہے۔ یہ کام علماے کرام کا ہے۔ قرآن کی تفسیر اور معنی و مطالب قیامت تک بیان ہوتے رہیں گے اور ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق روزِ قیامت تک اس کی تشریح و تفسیر ہوتی رہے گی اور اس کے مطالب ختم نہیں ہوں گے۔

قرآن میں ان لوگوں کو اُمّی (اَن پڑھ) کہا گیا ہے جو قرآن کا علم نہیں رکھتے، چاہے انھوں نے دنیاوی علوم میں پی ایچ ڈی ہی کیوں نہ کی ہو:
’’اِن میں ایک دوسرا گروہ اُمیّوں کا ہے، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں‘‘۔ (البقرہ: 78)
جن لوگوں نے اللہ کی آیات کو بھلا دیا انھیں آخرت میں اندھا اٹھایا جائے گا: ’’اور جو میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا: ’’پروردگار، دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’ہاں، اسی طرح تو ہماری آیات کو، جب کہ وہ تیرے پاس آئی تھیں، تو نے بھلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تو بھلایا جارہا ہے‘‘۔ (طٰہٰ: 124-126)

اس آیت کی تشریح کے سلسلے میں امام غزالیؒ احیاء العلوم میں ایک مثال پیش کرتے ہیں کہ ایک آقا نے اپنے خدّام کو ایک باغ سُپرد کیا اور اس کی اصلاح و تعمیر کے لیے انھیں ایک تحریری ہدایت نامہ دیا کہ اس کے مطابق باغ کی اصلاح و تعمیر سے کام لینا تھا۔ آقا نے حسن کارکردگی پر ان سے انعام و اکرام کا وعدہ کیا اور لاپروائی اور غفلت سے کام لینے پر سخت سزا کی دھمکی دی۔ ان خدّام نے اس ہدایت نامے کی نہایت تعظیم کی۔ اسے بار بار پڑھا بھی لیکن اس کی کسی بات پر عمل نہ کیا اور غفلت سے باغ کی اصلاح و تعمیر کے بجاے اسے ویران و برباد کردیا۔ اس ہدایت نامے کی رسمی تعظیم اور بار بار پڑھنے نے انھیں فائدہ نہ پہنچایا سواے اس کے کہ اس کی خلاف ورزی پر انھوں نے اپنے آپ کو مستوجب سزا ٹھیرا لیا۔
(تدریس لغۃ القرآن)