مزید خبریں

اعمالِ صالحہ اور روحانیت

نماز کے علاوہ دوسری تمام عبادات کا اہتمام کرنا، جیسے صدقہ، زکوٰۃ، خیرات، روزہ ،حج، جہاد اور ان عبادات کے علاوہ تمام اعمالِ صالحہ کا التزام کرنا روحانیت کے لیے لازم ہے۔ صرف کلمۂ توحید کا اقرار کرنا اور شرک وکفر سے پرہیز کرنا روحانی زندگی کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ نیک عمل کو زندگی کا طریقہ اور وظیفہ بنا لینا ضروری ہے۔ روحانیت کے لیے اعمال صالحہ کا اہتمام کرنے کی ضرورت اور حکمت کیا ہے؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندویؒ نے لکھا ہے:

’’عیسائیوں میں جیسا کہ پال کے خطوط میں ہے، صرف ایمان پر نجات کا دارومدار ہے، اور بودھ دھرم میں صرف نیکو کاری سے نروان کا درجہ ملتا ہے اور کہیں صرف گیان اور دھیان کو نجات کا راستہ بتایا گیا ہے، مگر پیغمبر اسلام علیہ السلام کے پیغام نے انسانیت کی نجات کا ذریعہ ذہنی (ایمان) اور جسمانی (عمل صالح) کو ملا کر قرار دیا ہے، یعنی پہلی چیز یہ ہے کہ ہم کو اصول کے صحیح ہونے کا یقین ہو، اس کو ایمان کہتے ہیں، پھر یہ کہ ان اصولوں کے مطابق ہمارا عمل درست اور صحیح ہو، یہ عمل صالح ہے۔ ہر قسم کی کامیابیوں کا انحصار انھی دو باتوں پر ہے۔ کوئی مریض صرف اصول طبی کو صحیح ماننے سے بیماریوں سے نجات نہیں پا سکتا، جب تک وہ ان اصولوں کے مطابق عمل بھی نہ کرے۔ اسی طرح صرف اصولِ ایمان کو تسلیم کر لینا انسانی فوز وفلاح کے لیے کافی نہیں ہے جب تک ان اصولوں کے مطابق پورا پورا عمل بھی نہ کیا جائے‘‘۔ (سیّد سلیمان ندوی، سیرت النبی)

عمل صالح کا اہتمام کرنے سے انسان اللہ کی نظر میں بھی محبوب ہو جاتا ہے اور دوسرے انسان بھی اس سے محبت اور اس کی عزت کرنے لگتے ہیں، یعنی جو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتا ہے وہ بندوں کی نظر میں بھی محبوب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے:
’’جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے عمل صالح کا اہتما م کیا عنقریب رحمٰن ان کو دوست بنائے گا‘‘۔
(مریم: 96)

اعمالِ صالحہ کا فائدہ انسان کو اس وقت ہوتا ہے جب وہ بْرے اعمال، بْرے خیالات اور بْری باتوں سے اجتناب کرے۔ اعمالِ صالحہ روحانی امراض کے لیے دوا ہیں اور بری باتوں سے دْور رہنا پرہیز کے درجے میں ہے۔ جب تک مریض پرہیز نہیں کرتا دوا کارگر نہیں ہوتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ظاہری اور باطنی ہر قسم کی برائی ترک کر دو‘‘۔ (الانعام: 120)

بْرے اعمال اور بْرے خیالات کا اثر انسان کے قلب وذہن پر پڑتا ہے اور اسے روحانی کیفیات کا حامل بننے سے روکتا ہے۔ قرآن پاک میںہے:
’’ہرگز نہیں، بلکہ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے‘‘۔ (المطففین: 14)

نبی پاکؐ نے فرمایا کہ جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ بن جاتا ہے۔ اگر وہ اس سے توبہ واستغفار کرتا ہے تو وہ سیاہی زائل ہو جاتی ہے، اور اگر وہ پھر گناہ کرتا ہے تو سیاہی زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے۔

اس لیے روحانیت کی سب سے پہلی منزل یہ ہے کہ اوصاف رزیلہ انسان کے دل سے نکل جائیں اور دوسری منزل یہ ہے کہ اوصاف حمیدہ کا دل خوگر ہو جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ واستغفار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کرو تا کہ فلاح پائو‘‘۔ (النور: 31)