مزید خبریں

سیدنا حمزہؓ بن عبدالمطلب کا قبول اسلام

سیدنا حمزہؓ بن عبدالمطلب نبی اکرمؐ کے چچا ہیں اور لگ بھگ ہم عمر ہیں۔ ان دونوں نے سیدہ ثوبیہ کا دودھ پیا ہے، اسی لحاظ سے دونوں رضاعی بھائی بھی ہیں۔ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب قریش کے معزز سردار تھے اور انتہائی بہادر، دلیر اور غصے والے تھے۔ آپؓ کو شکار کا بہت شوق تھا۔ بہت مالدار تھے، نوکر چاکر کاروبار (تجارت کا) سنبھالتے تھے اور آپؓ کا زیادہ وقت شکار میں گزرتا تھا۔ نبی اکرمؐ نے اعلان نبوت کیا تو غیر جانب رہے۔ نہ آپؐ کی حمایت کی اور نہ ہی مخالفت کی۔
آپؓ نے نبوت (بعثت) کے چھٹے سال اسلام قبول کیا اور اسلام قبول کرنے کی وجہ ایک خاص واقعہ بنا۔ اسی واقعے نے سیدنا حمزہؓ کو نبی اکرمؐ کی طرف متوجہ کیا اور آپؓ کو ایک سنجیدہ سوچ اور صحیح رْخ بھی مل گیا۔

ابو جہل کی بد تمیزی
سید الانبیاءؐ کوہِ صفا کے دامن میں تشریف فرما تھے۔ ابوجہل وہاں پہنچا اور نبی اکرمؐ کی شان میں گستاخی کرنے لگا اور بد زبانی کرنے لگا۔ سید الانبیاءؐ بہت صبر اور تحمل سے سنتے رہے۔ بدبخت ابوجہل کے منہ میں جو آیا بکتا گیا اور اس بار تو اس نے حد کر دی اور آپؐ پر حملہ کرنے کی بھی کوشش کی۔ ایک روایت میں تو یہ بھی ہے کہ بدبخت ابوجہل نے پتھر پھینک مارا جو سید الانبیاءؐ کو لگا اور خون بہنے لگا۔ جب ابوجہل نے خون بہتا دیکھا تو بکتا جھکتا ہوا خانۂ کعبہ کے پاس چوپال میں جا بیٹھا۔ جہاں دوسرے سردار بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے جانے کے بعد کچھ دیر تک سید الانبیاءؐ وہاں رکے اور پھر اپنے گھر چلے گئے۔ قریب ہی عبداللہ بن جدعان کا گھر تھا اور اس کی لونڈی یہ سب دیکھ اور سن رہی تھی۔

سیدنا حمزہؓ نے بدلہ لیا
سیدنا حمزہؓ شکار پر گئے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد آپؓ اپنا شکار اور تیر کمان لیے ہوئے ادھر سے گزرے تو عبداللہ بن جدعان کی لونڈی نے کہا: ’’آج تو بہت برا ہوا‘‘۔ سیدنا حمزہؓ نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘ اُس نے تمام واقعہ تفصیل سے بیان کردیا۔ سیدنا حمزہؓ کو اپنے پیارے بھتیجے سے بہت زیادہ محبت تھی۔ تمام واقعہ سن کر سیدنا حمزہؓ غصے سے بے قابو ہوگئے اور اپنے شکار کو وہیں پھینکا اور سیدھے چوپال میں پہنچے۔ ابو جہل وہاں بیٹھا اپنی بڑائی ہانک رہا تھا۔ آپؓ نے پہنچتے ہی اپنی کمان ابوجہل کے سر پر دے ماری۔ اس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا۔ آپ نے جلال بھری آواز میں کہا: ’’تُو میرے بھتیجے کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے اور اْس پر حملہ کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں، میں بھی اْ س کے دین پر ہوں۔ اب بول کیا کرے گا؟ لوگ ابوجہل کی مدد کے لیے کھڑے ہوئے تو ابوجہل نے کہا: ’’رْک جائوغلطی میری ہی تھی، میں نے آج ان کے بھتیجے کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔

اسلام قبول کرتے تو زیادہ خوشی ہوتی
سیدنا حمزہؓ نے اپنی سمجھ کے مطابق اپنے پیارے بھتیجے کا بدلہ لے لیا اور خوشی خوشی سیدالانبیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’بھتیجے! ابوجہل نے جو غلط حرکت تمہارے ساتھ کی تھی میں نے اس کا بدلہ لے لیا ہے اور اس کا سر پھاڑ دیا ہے‘‘۔ سید الانبیاء نے فرمایا: ’’چچا جان! اگر بدلہ لینے کے بجائے آپ اسلام قبول کرلیتے تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی‘‘۔ نبی اکرمؐ کے یہ الفاظ سن کر حمزہؓ اپنے گھر خاموشی سے چلے آئے۔ لیکن سید الانبیاء کے الفاظ اْن کی روح میں اتر گئے۔ پوری رات بے چینی سے کروٹ بدلتے گزری۔ جب کسی طرح اضطراب اور بے چینی دور نہیں ہوئی تو خانہ کعبہ کے پاس پہنچ کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی: ’’اے اللہ تعالیٰ! حق کے لیے میرا سینہ کھول دے اور اس شک اور تردد کو دور فرما‘‘۔ اْن کی دعا پوری ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپؓ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا اور حق آپؓ پر واضح ہوگیا۔ صبح ہوتے ہی سید الانبیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔

سیدنا حمزہؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد جب نبی اکرمؐ کی تعلیمات کو دیکھا اور قرآن پاک کی تلاوت سنی تو دل میں اسلام کی حقانیت کا نور بھر گیا اور آپؓ نے اپنے تاثرات اس طرح بیان کیے: ’’میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں کہ اْس نے دین ِ حنیف اسلام کو قبول کرنے کے لیے میرے دل کو ہدایت دی۔ وہ دین جو رب کریم کی طرف سے آیا ہے۔ وہ رب کریم عزت والا ہے اور اپنے بندوں کے حالات سے باخبر ہے اور اْن کے ساتھ لطف و احسان کرنے والا ہے۔ جب اس (اللہ تعالیٰ) کے پیغاموں (قرآن پاک کی آیات) کی ہم پر تلاوت کی جاتی ہے تو ہر عقل مند اور زیرک انسان کے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔ یہ ایسے پیغامات ہیں جو ’’احمد مجتبیٰ محمد مصطفیؐ‘‘ لے کر آئے ہیں۔ ایسی آیات کے ساتھ جن کے حروف روشن ہیں۔ ’’احمد مجتبیٰ محمد مصطفیؐ‘‘ وہ ہیں جن کی ہم اطاعت کرتے ہیں اور کوئی کمزور بات اور عقل وفہم سے گری ہوئی بات سے وہ پاک ہیں۔ اللہ رب العزت کی قسم! ہم انھیں (رسولؐ کو) دشمن کے حوالے ہرگز نہیں کریں گے اور ہم نے ابھی تک ان کے درمیان تلواروں سے فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ہم اْن کے مقتولوں کو ہموار زمین پر پھینک دیں گے۔ ان پر ایسے پرندے آئیں گے جو چکر لگانے والے لشکر کی مانند ہوں گے‘‘۔